امریکہ کو اب افغانستان سے جانے کی جلدی کیوں ؟

Last Updated On 29 April,2019 08:43 am

لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد اور امریکہ کی ڈپٹی سیکرٹری آف اسٹیٹ برائے جنوبی ایشیا امب ویلس آج اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں ان کی آمد اور اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کا مقصد افغانستان میں جاری مذاکراتی عمل کو نتیجہ خیز بنانے اور اس کی راہ میں رکاوٹوں کی دوری ہے اور بنیادی سوال یہی ہے کہ کیا امریکہ کی اعلیٰ سطح کا وفد کی آمد افغانستان کے اندر پیدا شدہ ڈیڈ لاک کو توڑنے میں معاون بن سکے گا اور امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل کو یقینی بنانے میں سہولت کار کا کردار ادا کرنے والا پاکستان ان کی کیا مدد کر پائے گا۔

امریکہ کو اب افغانستان سے جانے کی جلدی کیوں ہے ، اور کیا افغانستان کے اندر ایک مستقل اور نمائندہ حکومت کے قیام کیلئے عبوری حکومت قائم ہو سکے گی۔ یہ وہ سوالات ہیں جو افغان امن عمل کے حوالے سے اہم ہیں۔ اور امریکہ کے اعلیٰ سطح کا وفد کی آمد کا بڑا مقصد بھی۔ پاکستان کو افغانستان میں جاری ڈیڈ لاک کی کیفیت میں کسی کردار کی ادائیگی کیلئے آمادہ کرنا ہے لیکن پاکستان کے ذمہ دار ذرائع یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ہم افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں اور اس امن کو یقینی بنانے کیلئے پاکستان نے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل کیلئے اپنا کردار ادا کیا لیکن پاکستان اب طالبان پر مزید دباؤ ڈالنے اور افغان انتظامیہ سے مل کر بیٹھنے کیلئے کردار ادا کرنے سے گریزاں ہے کیونکہ طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں امریکی افواج کی آمد کے وقت یہاں جو بندوبست تھا اسی بندوبست کی بحالی کے ساتھ ہی معاملات آگے چل سکتے ہیں اور وہ اس حوالے سے اشرف غنی انتظامیہ کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔

طویل عرصہ بعد مذاکرات، افغانستان میں امن کیلئے فضا ہموار ہوئی ہے۔ لہٰذا فریقین اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اس بیان کا بڑا مقصد ہی یہی تھا کہ افغانستان کے اندر ڈیڈ لاک کے خاتمہ میں اب ہم کوئی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں اور یہ معاملہ افغانستان کے اندر ہی طے ہونا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اپنے طور پر کوشش کرنے کے بعد بھی اس میں کامیاب نہیں ہو سکا اور اب وہ ایک مرتبہ پھر پاکستان کا امتحان چاہتا ہے اور پاکستان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ افغانستان کے اندر ڈیڈ لاک کے خاتمہ میں اپنا کردار ادا کرے اور طالبان کو مجبور کریں کہ وہ اشرف غنی انتظامیہ سے مذاکرات کی میز پر نہ بیٹھنے سے اپنے مؤقف پر نظر ثانی کریں تا کہ معاملات آگے کی جانب چل سکیں جبکہ امن مذاکرات پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ افغانستان کے اندر ڈیڈ لاک افغانستان کا اندرونی مسئلہ ہے اور ہم اس میں کسی کردار کی ادائیگی کے ذریعے اس کی ناکامی کا ملبہ اپنے اوپر نہیں ڈالنا چاہتے اور یہی وہ نکتہ ہے جہاں افغان امن عمل رکا ہوا ہے اور امریکہ کو پاکستان کی ضرورت پڑی ہے اور اب پاکستان کی لیڈر شپ کا امتحان ہے کہ وہ اپنے اصولی مؤقف پر قائم رہتے ہوئے افغانستان کے اندر ڈیڈ لاک کے خاتمہ میں کوئی کردار ادا کرنے سے گریزاں رہتا ہے یا پھر اسے ایک مرتبہ پھر امریکی دباؤ پر طالبان کو اشرف غنی انتظامیہ سے مذاکرات کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

پاکستان کا بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اب طالبان کی پوزیشن بہتر ہو چکی ہے ان کی جدوجہد رنگ لاتی نظر آتی ہے۔ اور وہ یہ بھانپ چکے ہیں کہ امریکہ اب یہاں اپنی فوجوں کا انخلا چاہتا ہے اور اسے ہر صورت آئندہ انتخابات سے پہلے واپس جانا ہے اور امریکیوں کی سب سے بڑی ترجیح اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اب اشرف غنی انتظامیہ کی حیثیت بالکل گھٹتی چلی جا رہی ہے۔ ہر آنے والے دن میں ان کا کردار ختم ہو رہا ہے جن پر وہ پریشان ہیں اور زیادہ غصہ انہیں طالبان پر نہیں بلکہ امریکہ پر ہے کیونکہ امریکہ نے براہ راست طالبان سے مذاکرات کر کے نہ صرف افغانستان میں طالبان کی حیثیت و اہمیت کو تسلیم کیا بلکہ آنے والے حالات میں اور انتخابات میں بھی طالبان کو بالادستی کا سگنل دے دیا اور غالباً یہی وہ نشہ اور خمار ہے جس کے باعث طالبان اشرف غنی انتظامیہ سے مذاکرات سے گریزاں ہیں لہٰذا اس مرحلہ پر پاکستان پر اپنا دباؤ بڑھانے کی بجائے خود امریکہ کو چاہئے کہ وہ اپنے کٹھ پتلی حکمرانوں کو اب ایک قدم پیچھے آنے پر آمادہ کریں اور اپنا اثر و رسوخ بروئے کار لائیں کیونکہ افغانستان نے امریکی افواج کا انخلا اب خود ان کی اپنی ضرورت ہے اور طالبان امریکہ کے اس کمزور پہلو کو اپنے لئے مضبوط سمجھتے ہوئے اپنے اصولی مؤقف پر ثاقب قدم ہیں اور سمجھتے ہیں کہ صبر اور حکمت سے چل کر وہ اس مرحلہ پر انتخابات سے قبل کٹھ پتلی حکمرانوں سے نجات حاصل کر لیں گے۔ لیکن اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو طالبان کو اپنا روشن مستقبل دیکھتے ہوئے اپنے مؤقف میں لچک دکھانا ہوگی اور عبوری حکومت میں حصہ بحیثیت جثہ حاصل کر کے نمائندہ حکومت کے قیام کیلئے پیش رفت کرنا ہوگی۔

ویسے بھی طالبان سے مذاکرات کیلئے اشرف غنی انتظامیہ کی جانب سے اڑھائی سو افراد کی نامزدگی کا عمل بھی ان کی غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے اور یہ اس امر کا بھی ثبوت ہے کہ ان میں فیصلہ سازی کی گئی ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ افراد کو مذاکراتی وفد میں شامل کر کے یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ انہیں یہاں زیادہ لوگوں کی تائید حاصل ہے مگر افغانستان کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اشرف غنی انتظامیہ اڑھائی سو افراد کو نامزد کرے یا اڑھائی افراد کو کھیل اس دن ان کے ہاتھوں سے نکل گیا تھا جب امریکہ نے انہیں بائی پاس کر کے طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ کر لیا تھا۔ لہٰذا اب اس مذاکراتی عمل کی کامیابی کا دارومدار امریکی اثر و رسوخ اور حکمت عملی پر ہے۔ پاکستان کو افغانستان کے اندر بروئے کار لانا کہ پاکستان کے اندر مفاد میں ہے نہ خود امریکہ کے مفاد میں اور انہیں عمل سے خود امن عمل بھی آگے نہیں چل پائے گا۔ لہٰذا یہ کام امریکہ کو خود کرنا ہوگا ۔ پاکستان اس کھیل کا حصہ بن کر جیتی بازی ہارنے کیلئے تیار نہیں ہوگا۔
 

Advertisement