لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر کے طور پر خواجہ آصف اور چیئرمین پبلک سروس کمیشن کے منصب کیلئے رانا تنویر حسین کی نامزدگی کے بعد عام تاثر یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاید مسلم لیگ ن میں سے شریف خاندان اور خصوصاً شہباز شریف کا کردار کم ہوا ہے اور ن لیگ کی دوسری سطح کی قیادت کو آنے والے حالات میں قیادت کا موقع ملے گا اور شریف قیادت کی جماعت اور سیاست سے گرپ ختم ہوتی جائے گی لہٰذا سوال یہ اٹھتا ہے کہ واقعتاً شریف قیادت پیچھے ہٹ رہی ہے۔ ان کی قومی سیاست اور خصوصاً اپنی جماعت پر گرفت ڈھیلی پڑ جائے گی اور آنے والے حالات میں ان کی وہ حیثیت و اہمیت قائم نہیں رہے گی اور جس پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئر مین شپ کو حکومت اور اپوزیشن نے اپنی ناک کا مسئلہ بنا لیا تھا اب اس سے دستبرداری کا کیا جواز ہے۔
جہاں تک مسلم لیگ ن کے اندر ہونے والی جماعتی تبدیلیوں کا سوال ہے تو پارلیمانی لیڈر کے طور پر خواجہ آصف کی تقرری کا مقصد خود متحدہ اپوزیشن میں مسلم لیگ ن کے ایک اور لیڈر کو نمائندگی دلانا ہے کیونکہ اپوزیشن کے کسی بھی اجلاس میں صدارت شہباز شریف کرتے ہیں اور اپوزیشن لیڈر کے طور پر وہ اپنی جماعت کا نکتہ نظر پیش نہیں کر پاتے اور یہ ضرورت خود ان کے ہاں بڑی دیر سے محسوس کی جا رہی تھی کہ اپوزیشن اجلاس میں مسلم لیگ ن کے کسی اور شخص کو نمائندگی ملے تاکہ وہ کھل کر اپنی جماعت کے احساسات اور مختلف ایشوز پر جماعتی موقف کا اظہار کر سکے لہٰذا اپوزیشن میں اب اپوزیشن لیڈر کے علاوہ خواجہ آصف بھی موجود ہوں گے۔ مسلم لیگ ن میں شریف خاندان کی اہمیت مسلمہ ہے اور وہ اپنے جماعتی مفادات یقینی بنانے کے بعد ہی کسی اور کو کچھ دینے کے قابل ہیں باوجود اس امر کے کہ خواجہ آصف پارلیمانی لیڈر اور رانا تنویر حسین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین بن جائیں گے لیکن فیصلوں کا اختیار شریف قیادت کے پاس ہی رہے گا۔
خواجہ آصف کی نامزدگی نواز شریف کے موقف کی جیت نظر آ رہی ہے۔ ان فیصلوں میں
صرف شہباز شریف ہی نہیں بلکہ نواز شریف کی تائید و حمایت بھی حاصل ہے اور وہ ایسے فیصلے کرتے وقت صرف اپنے ساتھیوں کی جماعت اور اپنے ساتھ کمٹمنٹ کے علاوہ بھی بہت کچھ دیکھتے ہیں کہ کہیں حالات و واقعات میں ان کا نامزد کردہ کوئی بندہ ڈگمگا نہ جائے۔ اس کی ایک مثال شاہد خاقان عباسی ہیں۔ جنہوں نے وزیراعظم بننے کے باوجود اپنی حیثیت قائم رکھتے ہوئے اپنی لیڈر شپ سے کمٹمنٹ پر آنچ نہیں آنے دی اور ڈٹ کر اسٹیبلشمنٹ کے مقابل اپنی قیادت کا دم بھرتے نظر آئے اور باوجود اپنے حلقہ انتخاب سے ہارنے کے لیڈر شپ نے انہیں لاہور سے لا کر اپنے محفوظ حلقہ سے ضمنی انتخاب لڑایا اور جتوایا۔
اس وقت بھی نواز شریف اور مریم نواز کی جانب سے اختیار کی جانے والی خاموشی کی حکمت عملی کسی اور دباؤ کے باعث نہیں بلکہ خود پارٹی کی مستقل قیادت شہباز شریف کی اپیلوں، منت سماجت کا نتیجہ ہے اور دیکھو اور انتظار کرو کی یہ پالیسی دراصل شہباز شریف کی حکمت عملی کے باعث ہے ۔ جہاں تک خواجہ سعد رفیق اور میاں جاوید لطیف کی جانب سے آنے والے تحفظات کا سوال ہے تو خواجہ سعد رفیق کے قریبی حلقے اس بات پر معترض نظر آتے ہیں کہ پارٹی لیڈر شپ کو جیلوں میں بند اپنے ساتھیوں کا کوئی خیال نہیں سب اپنی اپنی جان بچاتے اور اپنے مفادات یقینی بناتے نظر آ رہے ہیں اس حوالے سے خصوصاً ان کا اشارہ پارٹی کے صدر شہباز شریف اور ان کے صاحبزادگان کی جانب ہے جبکہ جہاں جاوید لطیف پارٹی کے اندر اسٹیبلشمنٹ گروپ کی پذیرائی کی بات اپنے ضلع کے تناظر میں کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مشکل حالات میں میڈیا کے محاذ پر پارٹی کی ترجمان کا فریضہ ہم سرانجام دیتے نظر آتے ہیں مگر جب بھی اہم منصب پر تقرری اور کسی بڑے کردار کا سوال ہو تو محض جن لوگوں کو نوازا جاتا ہے غالباً ان کا اشارہ رانا تنویر حسین کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئر مین شپ پر نامزدگی کا ردعمل ہے۔
اپوزیشن میں مشکل حالات میں لوگ صعوبتوں کے بجائے مصلحتوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور پسپائی اختیار کرتے ہیں لیکن کہنے کو یہ مسلم لیگ ہے مگر اس مسلم لیگ میں وقت کے ساتھ وابستگی تبدیلی کرنے والے موقع پرستوں کی تعداد خال ہی نظر آ رہی ہے اور وہ اب بھی یہ امید اور آس لگائے بیٹھے ہیں کہ آنے والا وقت ہمارا ہے اور یہی امید اور آس انہیں اِدھر اُدھر ہونے سے روک رہی ہے اور یہی وہ طاقت ہے جو مسلم لیگ ن کو قائم و دائم رکھے ہوئے ہے۔