لاہور: (طارق عزیز) مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی طرف سے خاموشی پارٹی کے اندر مایوسی اور بے چینی کاسبب بنتی جارہی ہے، نامکمل تنظیمی ڈھانچہ، شہباز شریف کا دورہ لندن، نواز شریف، مریم نواز کی عدالتی ریلیف کی صورت میں متوقع لندن روانگی، قومی اور اہم ایشوز بارے پالیسی سے لاعلمی ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے پارٹی کے اندر غیر یقینی صورتحال پائی جاتی ہے، پارٹی ہارڈ لائنرز اور مصلحت پسند دو گروپوں میں تقسیم ہے ، اول الذکر نوازشریف، مریم نواز کے زیادہ قریب سمجھا جاتا ہے ، جبکہ دوسرا گروپ شہباز شریف کا حامی ہے، تاہم دونوں گروپ نوازشریف، شہباز شریف کے متعلق کچھ نہیں جانتے وہ کیا کرنا چاہ رہے ہیں اگر مقتدر حلقوں کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے تو اس بارے میں دونوں گروپ قطعی لاعلم ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی وطن واپسی میں تاخیر ہوگئی ہے، وہ 7 مئی کے بجائے اب 14 مئی کو پاکستان پہنچیں گے، ان کی عدم موجودگی میں پارلیمانی پارٹی اجلاسوں میں قیادت کی پالیسیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، آج پھر پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوگا، جس میں ارکان اسمبلی کے مسلسل اصرار کے بعد پارلیمانی لیڈر کے تقرر کا اعلان کیا جائے گا، نیب قید کے دوران پروڈکشن آرڈر پر اسمبلی اجلاس میں آنے والے خواجہ سعد رفیق نے پارلیمانی میٹنگ میں جارحانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے، وہ مسلسل سوال اٹھا رہے ہیں کہ لیڈر شپ کی طرف سے مسلسل خاموشی کیوں ہے، خواجہ سعد رفیق پارٹی لیڈر شپ کی طرف سے خاموشی پر سخت نالاں ہیں جبکہ سینئر رہنما خواجہ آصف نے پارلیمانی پارٹی کو یقین دلایا کہ لیڈر شپ نے موقف نہیں بدلا خاموشی کا مطلب یہ نہ سمجھا جائے کہ نواز شریف پیچھے ہٹ گئے یا کسی مصلحت کا شکار ہیں، نواز شریف اگر خاموش ہیں تو اس کی وجہ ہے۔ وقت آنے پر خاموشی توڑیں گے۔
پارٹی اجلاسوں میں نواز شریف کے غیر منتخب مشیر ایک مرتبہ پھر نشانہ پر ہیں، پارٹی کے اندر رائے پختہ ہوتی جا رہی ہے کہ ہمیں عید اور بجٹ کے بعد حکومت مخالف تحریک چلانی چاہیے، خاموشی یا سمجھوتہ مسئلہ کا حل نہیں ، اگر ہم مشکل سے نکل کر اچھے وقت میں داخل ہونا چاہتے ہیں تو اس کیلئے عملی جدوجہد کرنا ہوگی، جیسا کہ جے یو آئی اور پیپلزپارٹی کر رہی ہے، رپورٹ کے مطابق پارٹی قائد نواز شریف نے اپنی جمع تفریق ضرور کر رکھی ہے اگرچہ وہ شیئر نہیں کرتے تاہم وہ مناسب موقع اور وقت پر پارٹی کو اعتماد میں لیکر اپنی حکمت عملی کا اعلان کریں گے۔ انتہائی قابل اعتماد ذرائع نے بتایا نواز شریف سمجھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کی تجویز پر حلف نہ اٹھانا بہترین موقع تھا جسے ہم ضائع کر چکے ہیں، اب اس طرح کا کوئی دوسرا موقع جب تک پیدا نہیں ہوتا حکومت مخالف تحریک نہیں چلانی چاہیے۔
امکانی طور پر نواز شریف ستمبر میں مولانا فضل الرحمان کی تجویز پر حکومت مخالف تحریک کا حصہ بننے کیلئے تیار ہو جائیں گے، ایک ذرائع نے یہ بھی بتایا نواز شریف نے فضل الرحمان کو کہا ہے کہ وہ تحریک کے لئے زرداری کو راضی کر لیں تو ن لیگ بھی آپ کے ساتھ کھڑی ہو جائے گی مسلم لیگ ن تحریک سے قبل تنظیمی ڈھانچہ بھی مکمل کرنا چاہتی ہے جس کے لئے شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف، احسن اقبال متحرک ہوچکے ہیں، اس سلسلہ میں خواجہ آصف کی نواز شریف سے جلد ملاقات متوقع ہے۔