لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) معاشی محاذ پر ہونے والی اہم تبدیلیوں اور نئی ٹیم کی تشکیل کے بعد کیا معاشی بحران پر قابو پایا جا سکے گا۔ مسائل زدہ، مہنگائی زدہ عوام کیا گراں فروشوں اور حالات کے رحم و کرم پر رہیں گے۔ منتخب حکومت اور اس کے ذمہ داران عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے اس حوالے سے خاموشی اختیار کئے نظر آتے ہیں اور اب تو ملک کے سنجیدہ حلقے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ اب مسئلہ ملکی معیشت سے زیادہ قومی سلامتی کا بن چکا ہے اور خصوصاً اہم عہدوں پر آئی ایم ایف زدہ افراد کی تقرری کے بعد تاثر یہ بن رہا ہے کہ کہیں عظیم تر پاکستان کو ایک نو آبادی نظام کی طرف تو دھکیلا نہیں جا رہا کیونکہ ایک ایک کر کے مختلف ملکوں سے آئی ایم ایف کے ذمہ داران کو یہاں لا کر اہم عہدوں پر تعینات کیا جا رہا ہے۔
سابق وزیر خزانہ اسد عمر کو ایک رات قبل تک معلوم نہ تھا کہ ان کی چھٹی ہونے جا رہی ہے وہ تو آئی ایم ایف سے مذاکرات کر کے آنے کے بعد اپنی مٹھی کھولنے کی بات کر رہے تھے کہ ان کی چھٹی ہو گئی اور آئی ایم ایف زدہ حفیظ شیخ پاکستان میں مشیر خزانہ کے طور پر پہنچ گئے۔ اب سٹیٹ بینک کی گورنری مصر میں آئی ایم ایف کے نمائندہ ڈاکٹر رضا باقر کے حصے میں آئی ہے، سٹیٹ بینک کے گورنر طارق باجوہ جن کی ذمہ داری کی مدت 3 سال تھی انہوں نے ایک ہی کال پر سرنڈر کر دیا اور ان کی تبدیلی اس صورتحال میں ہوئی جب آئی ایم ایف کا وفد اسلام آباد میں موجود تھا۔ آئی ایم ایف سے پیکیج ڈیل کیلئے اہم عہدوں پر تعینات کئے جانے والے افراد کا جائزہ لیا جائے تو یہ سب وہی ہیں جو آئی ایم ایف کیلئے کام کرتے رہے ہیں مختلف ممالک میں انہوں نے اس کیلئے ذمہ داریاں ادا کی ہیں اور وہ پاکستان میں صرف آئی ایم ایف کے مفاد میں حکومتوں سے معاملات کیلئے آتے ہیں اور جب اس حکومتوں سے علیحدہ کر دیا جاتا ہے تو پھر یہ پاکستان سے چلے جاتے ہیں۔ یہ ان کی پاکستان سے کمٹمنٹ اور پاکستان کو در پیش معاشی اور اقتصادی بحرانوں کے خاتمہ میں ان کا کردار ہے۔
خود ڈاکٹر حفیظ شیخ ماضی میں پیپلز پارٹی کے وزیر خزانہ بنے اور حکومت سے علیحدگی کے بعد وہ واپس چلے گئے۔ ڈاکٹر رضا باقر کی تعیناتی اس وقت ہوئی ہے جب آئی ایم ایف کے ساتھ ایک اور قرض کا معاہدہ زیر غور ہے اس صورتحال میں ان کی تعیناتی کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس فیصلے میں خود آئی ایم ایف کا کتنا اثر و رسوخ ہے۔ سٹیٹ بینک کے گورنر کے طور پر ان کی ذمہ داریوں میں ملکی معیشت کی مضبوطی کے ساتھ قرض پالیسی شرح سود اور روپے کی شرح مبادلہ جیسے اہم ترین فیصلے شامل ہیں اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں بھی شرح سوداور شرح مبادلہ جیسے نکات شامل ہیں جن پر مالیاتی ادارے کی واضح ہدایات ہیں کہ ان میں اضافہ کیا جائے اور یہ اضافہ مہنگائی زدہ عوام کی کمر توڑ کر رکھ دے گا۔ ایسی صورتحال میں گورنر سٹیٹ بینک کا وزن کس جانب ہوگا۔ پٹرولیم قیمتوں میں اضافہ کی تجویز پر فیصلہ موخر کیا گیا کہ حتمی فیصلہ منگل کو کابینہ میں ہوگا لیکن اتوار کی درمیانی رات عوام پر پٹرولیم بم چلا دیا گیا۔ پٹرولیم کی قیمتوں میں 9 روپے کے اضافہ کے اثرات اشیائے ضروریات کی قیمتوں پر بجلی کی طرح گریں گے۔ معاشی صورتحال دن بدن دگرگوں ہو رہی ہے۔ مسائل زدہ عوام کی زندگیاں اجیرن بن رہی ہیں۔ دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے نظر آ رہے ہیں اور دوسری جانب حکومت کی معاشی پالیسیوں اور اس میں آئی ایم ایف زدہ مشیروں اور ذمہ داران کا کردار یہ ظاہر کر رہا ہے کہ عوام کیلئے اب کوئی خیر کی خبر نہیں۔
بد قسمتی یہ ہے کہ حکومت کی معاشی ٹیم پر آئی ایم ایف زدہ غالب آ گئے ہیں اور اس سارے عمل پر کسی جماعت اور سیاسی قیادت نے عملاً کچھ نہیں کیا۔ حالانکہ یہ آزاد ذہن کا حامل شخص آئی ایم ایف کے ملکوں کے ساتھ معاہدوں کو کبھی ملک کے حق میں اچھا نہیں سمجھتا اور آج کا بڑا المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں اقتصادی مسائل کا کوئی حقیقی تجزیہ نہیں کیا جا رہا۔ حقیقی ماہرین معاشیات دستیاب ہونے کے باوجود سارا انحصار آئی ایم ایف زدہ سسٹم پر ہو رہا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے ؟ کیا وہ فیصلے آئی ایم ایف کے مفاد میں کریں گے یا پاکستان کے مفاد کو بروئے کار لائیں گے ؟ ان کی ترجیحات کیا ہیں ؟ کیا پاکستان کو معاشی گرداب سے نکالا جا سکے گا۔ ایک طرف آئی ایم ایف کے پیکیج سے بہت سی توقعات قائم کی جا رہی ہیں، دوسری جانب یہ چہ مگوئیاں کی جا رہی ہیں کہ عالمی قوتوں نے اپنے مفادات کیلئے آئی ایم ایف سے مذاکرات کو ایف اے ٹی ایف سے منسلک کر رکھا ہے۔ وہ قوتیں کسی طور بھی پاکستان کے حکمرانوں کو شکنجے سے باہر نہیں نکلنے دینا چاہتیں اور اصلاحات کے نام پر ایسا سسٹم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان کو ہر حوالے سے کسا جائے اور خصوصاً پاکستان کو سی پیک کے فوائد سے محروم رکھا جائے۔
اس صورتحال میں سیاسی و اقتصادی آزادی کے بغیر غربت و افلاس کا خاتمہ ممکن نہیں لہٰذا گیند حکمرانوں کے کورٹ میں ہے اور اگر انہیں حالات کا ادراک ہے تو وہ پارلیمنٹ کے ذریعے آئی ایم ایف سے مذاکرات اور اقتصادی صورتحال پر قوم کو اعتماد میں لیں۔ اندیشہ اس بات کا ہے کہ معاشی بحالی کیلئے تگ و دو کا عمل ہمیں صورتحال سے نکالنے کے بجائے مزید پھنسانے کا باعث بن رہا ہے۔ حکومتی پالیسیوں کے باعث عوام کیلئے ریلیف کے بجائے تکلیف بڑھ رہی ہے۔ ہر آنے والے دن میں مایوسی، بے یقینی میں اضافہ ہو رہا ہے اور اگر حکومت صورتحال کو سنجیدگی سے نہیں لیتی تو رمضان المبارک اور اس کے بعد مہنگائی، بے روزگاری اور غربت اپنا رد عمل ضرور دکھائے گی۔ کیا حکومت اس صورتحال پر قابو کر پائے گی ؟ انہیں اس پر سوچنا چاہئے۔