لاہور: (دنیا نیوز) وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پیسہ بنانے والے کا براحال ہوتا ہے، پیسہ بنانے والا ایک بھائی ملک سے باہر گیا جبکہ دوسرا کوششوں میں مصروف ہے کہ لندن بھیج دیا جائے۔
ایچی سن کالج میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ایچیسن کالج میں پڑھنے والوں کی بڑی ذمہ داری ہے، آج یہاں آ کر بہت خوش ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا پیسے والوں کو یاد نہیں رکھتی۔ جو اپنی قوم کے لیے کچھ کرے گا دنیا اسے یاد رکھے گی۔
وزیراعظم کا تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہماری آدھی آبادی غربت کی لکیرسے نیچے ہے، زیادہ تر انسانوں کو معلوم ہی نہیں اللہ نے انہیں کتنی صلاحیتیں دیں۔ میری زندگی کا اصول ہے پیچھے مڑکرنہیں دیکھتا۔
اس موقع پر وزیراعظم عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ قائداعظم نے اپنی بیماری کا بھی پتا نہیں چلنے دیا تھا، انہوں آزادی کے لیے 40 سال تک جدوجہد کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ملک کے لیے خدمت کرینگے تو دنیا یاد کرے گی۔ ہندو گنگا رام، گلاب دیوی ہسپتال بنا کر گیا لوگ اسے یاد کرتے ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ زندگی میں کوئی شارٹ کٹ نہیں محنت سے سب کچھ کیا جاسکتا ہے۔ جتنی بڑی سوچ ہوگی اتنا ہی بڑے آدمی بنیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ نے شکست سے ڈرنا نہیں، مقابلہ کرنا ہے۔ چیمپیئن وہ ہوتا ہے جس کوہارکا خوف نہ ہو۔
شاہی قلعہ میں ایک تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ صرف سیاحت کے فروغ سے ہی ہم بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کرسکتے ہیں، سابق حکمرانوں کو معلوم ہی نہ تھا کہ پاکستان میں پرکشش مقام تھے،اپنی ثقافت اور تاریخی مقامات کو محسوس کرنے والی قومیں ان پر فخر محسوس کرتی ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ آرکیالوجی کو اپنے تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں تاریخی مقامات کو محفوظ بنایا جاتا ہے۔ آنے والی نسلوں کیلئے ایسے مقامات محفوظ بنانا ضروری ہے۔ پاکستان میں ہندو مت، بدھ مت اور دیگر بے شمار مقامات ہیں، تمام تاریخی اور سیاحی مقامات کو محفوظ بنانے کا فیصلہ کیا ہے، ماضی کے حکمران چھٹیاں لندن اور امریکہ میں گزارتے تھے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اپنی ثقافت اور تاریخ کو محفوظ کرنے والی قومیں فخر محسوس کرتی ہیں۔ پشاور کے وال سٹی کیلئے لاہور وال سٹی سے مدد حاصل کریں گے۔ ملائیشیا میں صرف ساحلی سیاحت سے 20 ارب ڈالر منافع ہوتا ہے، ترکی کی بھی سیاحت میں سالانہ آمدن 40 ارب ڈالر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف شمالی علاقہ جات ہی سوئٹزرلینڈ سے دگنا ہیں اور ہم صرف سیاحت کے فروغ سے بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ سابق حکمرانوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ پاکستان میں پرکشش مقامات تھے، اب وقت آگیا ہے کہ آرکیالوجی کو اپنے تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے۔