لاہور: (روزنامہ دنیا) دعوت افطار پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے افطار ڈنر پر پاکستان کی سیاسی قیادت کا جمع ہونا ایک بڑی سیاسی پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے۔ یقیناً اس دعوت پر آنے والے آپس میں ملیں گے تو پھر حالات کے رخ پر بھی بات ہو گی۔ ملکی سیاست اور معیشت کی حالت زار بھی زیر غور آئے گی اور نئے حالات میں مل جل کر چلنے کی تجویز پر بھی غور ہوگا۔
مذکورہ دعوت میں اہم بات سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کا اپنی جماعت کے دیگر قائدین کے ہمراہ اس میں شریک ہونا شامل ہے۔ اس افطار ڈنر کی دعوت خود بلاول بھٹو زرداری نے ٹیلی فون کال کے ذریعے مریم نواز کو دی تھی جو انہوں نے قبول کر لی اور یقیناً یہ ان کی پارٹی کی نائب صدارت پر نامزدگی کے بعد کسی بڑے سیاسی ایونٹ میں پہلی انٹری ہوگی اور ان کی بات اور خیالات کو نواز شریف کا مؤقف ہی تسلیم کیا جائے گا۔
لہٰذا دیکھنا یہ ہوگا کہ بلاول بھٹو کا افطار ڈنر کس حد تک با مقصداور نتیجہ خیز ہوتا ہے۔ جتنا بلاول بھٹو نے سیاسی محاذ پر اپنے جرأت مندانہ طرز عمل اور ایشوز پر سیاست کے ذریعے حاصل کیا ہے گو کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ہی ہیں لیکن سیاسی محاذ پر یہ خلا بلاول بھٹو نے پُر کیا اور عملاً وہ اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرتے نظر آ رہے ہیں، ان کی جانب سے موجودہ حالات میں افطار کی دعوت کو ایک اہم پیش رفت کے طور پر لیا جا سکتا ہے اور اس مرحلہ پر جب ملک میں معاشی صورتحال تشویشناک ہوچکی ہے، مسائل اور مہنگائی زدہ عوام کی آواز بنیں اور ملک میں جاری و ساری جمہوریت اور جمہوری عمل کی فکر کریں اور یہ موقع بلاول بھٹو نے اپوزیشن لیڈر شپ کو اپنے دعوت افطار کے ذریعے دے دیا ہے اس دعوت افطار کے پس منظر کو دیکھنا چاہئے۔
اپوزیشن اپنے خلاف اقدامات سے خاصی الجھن اور کٹھن دور سے گزر رہی ہے، گزشتہ ہفتے ان کی نیب میں پیشی پر مبینہ طور پر جو خبریں سامنے آئی تھیں ان کے مطابق آصف زرداری اس سارے عمل سے زچ ہو گئے ہیں۔ نواز شریف بھی ضمانت کے بعد جیل چلے گئے ہیں اور اپنی پہلی ہفتہ وار جیل ملاقات میں انہیں ن لیگ کے رہنماؤں اور کارکنان نے مبینہ طور پر سیاسی تحریک چلانے کی خواہش کا اظہار کیا۔
بظاہر دونوں جماعتیں عید کے بعد سیاسی محاذ آرائی کا موڈ رکھتی ہیں۔ اپوزیشن عید کا انتظار اس لیے بھی کر رہی ہے کہ اس دوران بجٹ کا معاملہ واضح ہو جائیگا اور ملک میں معاشی بحران اور اضطراب جیسے ہی کوئی سمت لے تو اپوزیشن آگے بڑھ کر حالات کا دھارا متعین کرے۔
رمضان میں یہ پہلا بڑا سیاسی افطار ہو گا جس میں مریم نواز اور بلاول بھٹو سیاسی معاملات پر گفتگو کریں گے۔ بظاہر یہ بھی دکھائی دے رہا ہے کہ مریم نواز کو ن لیگ نے اب میدان سیاست میں فعال کردار کیلئے تیار بھی کر لیا ہے اور تسلیم بھی کر لیا، لازمی طور پر اس ملاقات کے بعد سیاست کا رنگ و آہنگ تبدیل ہو گا۔
اس سلسلے میں پہل بلاول بھٹو نے کی تھی اور پھر اس کے بعد نواز لیگ اور پیپلز پارٹی میں فاصلے واضح طور پر کم ہوئے تھے۔ دونوں جماعتوں کے درمیان یہ دوسرا بڑا قدم ہوگا اور اس کے بعد اگر معاشی بحران نہ ٹلا تو پھر ایک زبردست سیاسی محاذ آرائی مشترکہ طور پر دونوں جماعتوں کی جانب سے ہمیں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر نظر آئیگی۔
اس افطار کی دعوت سے لیکر اور اس کے بعد کی صورتحال پر دیکھا جائے تو بلاول اور مریم دونوں اہمیت اختیار کر جائینگے، ٹویٹر پر اب وہ قومی ایشوز خصوصاً مہنگائی اور حکومتی بدانتظامی کو ہدف تنقید بناتی نظر آتی ہیں، دونوں جماعتوں کی طرف سے اب افطار کے موقع کو استعمال کرتے ہوئے ایک سیاسی بیٹھک کا انتظام کیا گیا ہے، دونوں جماعتیں اپنی اپنی سطح پر اب حکومت مخالف تحریک پر متفق نظر آتی ہیں۔
لگ یہی رہا ہے کہ پہلے بجٹ کا انتظار کیا جائے، پھر عوامی غیظ و غضب کا اندازہ لگا کر سیاسی محاذ گرم ہوگا، ذرائع بتا رہے ہیں کہ دونوں جماعتیں اپنی مشاورت کو جاری رکھیں گی اور یہ سیاسی ملاقاتیں تواتر سے جاری رہیں گی۔ لازمی طور پر اس کے اثرات سیاسی محاذ پر ہونگے ۔ حکومتی وزرا کے لب و لہجے بدل جائینگے۔ وزیراعظم خود این آر او نہ دینے کا ذکر کرینگے اور احتسابی عمل کے شفاف اور غیر امتیازی مظاہرے بھی دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔
لازمی طور پر اس کا ردعمل پہلے پارلیمنٹ میں ہو گا۔ پارلیمنٹ قانون سازی سے مزید دور ہوگی اور مزید بڑا بحران حکومت کا منتظر ہوگا، جب بجٹ ایوان میں پیش ہو گا اپوزیشن ممکنہ طور پر اس سیشن کا بائیکاٹ کر دے گی اور عوامی سطح پر مہنگائی کا تاثر گڈگورننس سے ختم نہ ہوا تو پھر حکومت لڑکھڑا سکتی ہے کیونکہ سیاسی اور معاشی بحران ہمیشہ اقتدار اور حکمرانوں کی بھینٹ مانگتا ہے۔