لاہور: (امتیاز گل) ستمبر 2018 میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چینی صدر شی جن پنگ کیساتھ کھل کر باتیں کیں، انہوں نے چینی صدر کی خصوصی دعوت پر بیجنگ کا دورہ کیا تھا۔ حسب معمول صدر شی جن نے بطور سٹریٹجک پارٹنر پاکستان کیساتھ تعاون جاری رکھنے کی یقین دہائی کرائی اور اس بات پر زور دیا کہ سی پیک منصوبے کی مخالفت کبھی کامیاب نہیں ہو گی، کیونکہ امن اور ترقی کا یہ منصوبہ صرف چین نہیں بلکہ پورے خطے کے مفاد میں ہے۔
جواب میں جنرل باجوہ نے چینی صدر کا شکریہ ادا کرنے کے بعد اس گرد کو صاف کرنے کی کوشش کی جوکہ مشیر تجارت رزاق داؤد اور کچھ دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کے سی پیک سے متعلق بعض غیر ذمہ دارانہ بیانات نے اڑائی تھی۔ رپورٹ کے مطابق صدر شی جن پنگ نے ملاقات کے دوران جنرل باجوہ کو مشورہ دیا کہ ترقی پر فوکس کریں۔ معاشی ترقی اور استحکام سے از خود دیگر مسائل کے حل کی گنجائش پیدا ہو گی، جس میں بھارت کیساتھ تنازع کشمیر بھی شامل ہے۔ تقریباً دو ماہ بعد 3 نومبر کو ایک دوسری ملاقات ہوئی، جوکہ وزیراعظم عمران خان اور چینی نائب صدر وانگ چی شان کے درمیان تھی، دونوں رہنماؤں نے پاک چین سٹریٹجک تعاون پر مبنی تعلقات کی اہمیت پر زور دیا اور عالمی و علاقائی اہمیت کے ایشوز میں یہ تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
تقریباً پانچ ماہ بعد اپریل میں چینی نائب صدر وانگ چی شان نے وزیراعظم عمران خان کو اپنی ذاتی رہائش گاہ پر نجی ملاقات کی دعوت دی تاکہ یہ میڈیا کی نظر میں نہ آئے۔ عمران خان ان دنوں دوسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں شرکت کیلئے بیجنگ میں تھے۔ دونوں رہنماؤں کی نومبر کی ملاقات کا دنیا بھر کے میڈیا میں ذکر ہوا، مگر اپریل کی ملاقات کا کوئی ذکر نہ ہوا۔ چینی حکام کو یقین ہے کہ بالمشافہ ملاقات کا مقصد نوٹس کا تبادلہ تھا کہ کرپشن سے کیسے نمٹا جائے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وانگ چی شان 2012 سے 2017 کے دوران سنٹرل کمیشن برائے ڈسپلن انسپکشن کے سیکرٹری رہ چکے ہیں جوکہ کمیونسٹ پارٹی کی اینٹی کرپشن باڈی ہے۔
2014 میں وانگ چی شان کے تحت ‘‘سکائی نیٹ ’’کے نام سے مطلوب افراد کی کھوج لگانے کا پروگرام شروع ہوا، جس میں پانچ ہزار سے زائد مفرور ملک میں واپس لائے گئے، ان سے 13 ارب یوآن (ایک ارب 94 کروڑ امریکی ڈالر) برآمد کئے گئے۔ 2018 میں چینی عدالتوں نے 33 ہزار افراد کے خلاف کرپشن کے 28 ہزار مقدمات نمٹائے، ان میں 18 صوبائی یا اعلیٰ سطح کے افسر شامل تھے۔ اسی سال 32 سابق سینئر افسروں کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی، ان میں پیپلز لبریشن آرمی کے سینئر افسروں کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی کے رہنما شامل ہیں۔
درج بالا تینوں ملاقاتوں سے لگتا ہے کہ سماجی ، سیاسی اور معاشی مسائل پر انتہائی قریبی پاک چین تعاون کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف ) کا ایکشن پلان جس پر پاکستان اس وقت عمل پیرا ہے، اس نے اور فکر و عمل کے انوکھے پاک چین تعاون نے پاکستان کا تزویراتی ، سیاسی اور معاشی منظر نامہ ازسرنو ترتیب دیدیا ہے ۔ طویل المدت استحکام کے حوالے سے پاکستان کیلئے یہ ایک اچھی خبر ہے ۔ ان لوگوں کیلئے بری خبر ہے جوکہ عشروں سے عام شہریوں کے خون پسینے پر پھلتے پھولتے رہے ہیں۔ ان غیر ریاستی عناصر کیلئے بھی بری خبر ہے جوکہ اپنی اندرون ملک اور سرحد پار سرگرمیوں کیلئے سرپرستی پر انحصار کرتے تھے۔ بات چینی مشورہ اور ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان کی مجبوریوں تک محدود نہیں ہے۔ منی لانڈرنگ اور غیر ریاستی عناصر کی سرگرمیوں کو سپورٹ کرنے (ٹیرر فنانسنگ) کیلئے اختیارات کا بے لگام اورناجائز استعمال دونوں کی سخت چھان بین کی جانی ہے۔ لگتا ہے کہ معاشی ترقی، احتساب اور قانون کی حکمرانی کی کمر پر سوار ایک عام ریاست کیلئے پیچھے دیکھنا ممکن نہیں ہو گا۔بلا حجت معافی کا دور بتدریج ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔