لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی ) لائن آف کنٹرول کے قریب چھمب سیکٹر پر دھماکا کے نتیجہ میں پاک فوج کے پانچ جوانوں کی شہادت کا واقعہ بھارت کے جارحانہ طرز عمل اور اسکے مذموم ایجنڈا کا عکاس ہے جو ظاہر کر رہا ہے کہ بھارت اپنی علاقائی بالادستی قائم کرنے کیلئے اپنے ہمسایہ ممالک کو دفاعی محاذ پر لانے کیلئے دہشت گردی، تخریب کاری سمیت ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے پر یقین رکھتا ہے لیکن کیا پاکستان بھارت سے جارحانہ عزائم کا جواب دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
بھارت کی جانب سے ایک وقفہ کے بعد لائن آف کنٹرول پر دھماکہ کے مقاصد کیا ہیں ؟ بھارت کے جارحانہ طرز عمل اور کنٹرول لائن پر دھماکہ کے مقاصد کیا ہیں ؟ کیا عالمی برادری اس بھارتی طرز عمل پر خاموشی اختیار کئے رکھے گی ؟ پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ کی صورتحال کے نتائج کیا ہوں گے ؟ جہاں تک بھارت کی جانب سے مذکورہ واقعہ کا تعلق ہے اس کی ایک وجہ بھارت پر طاری وہ بوکھلاہٹ ہو سکتی ہے جو امریکہ کی جانب سے بلوچستان لبریشن آرمی کو عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے باعث پیدا ہوئی اور یہ حقیقت کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ بلوچستان لبریشن آرمی کو بھارتی تائید و حمایت اور فنڈنگ کی سہولت حاصل تھی اور خود وزیراعظم نریندر مودی کا بلوچستان کے حوالے سے ایک بیان ان کے ناپاک عزائم کا ثبوت ہے۔
کلبھوشن یادیو نیٹ ورک بھی بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے تھا اور پاکستان نے عالمی سطح پر دنیا کو بھارت کے اس مذموم کردار سے آگاہ کیا تھا اب چونکہ امریکہ کے اس اقدام کے بعد برطانیہ، سوئٹزر لینڈ سمیت مختلف ممالک میں بھارت کی مدد سے جاری بی ایل اے کی سرگرمیوں کو شدید دھچکا لگا ہے اور دنیا کے ان ممالک کو یہ پیغام مل گیا ہے کہ اس دہشت گرد تنظیم کو نہ تو سرگرمیوں کی اجازت ہوگی بلکہ اس کے گرد ہر سطح پر گھیرا تنگ کیا جائے گا۔ بی ایل اے کو عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا سب سے زیادہ نقصان اگر کسی کو ہوا ہے تو وہ بھارت اور اس کی خفیہ ایجنسی را کو ہے اور یہی وجہ ہے بھارت نے ایک مرتبہ پھر لائن آف کنٹرول پر ہنگامی صورتحال پیدا کر دی ہے۔
جہاں تک پاکستان کے جوابی طرز عمل کا سوال ہے تو پاکستان نے ہمیشہ بھارت کے جارحانہ طرز عمل پر صبر و تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا اور عالمی برادری کی توجہ اس جانب مبذول کرائی۔ بد قسمتی سے عالمی برادری اور خصوصاَ امریکہ اپنے مفادات کے تابع بھارت کے اس طرز عمل سے صرف نظر کرتا رہا ہے جس کی وجہ سے خطہ میں محاذ آرائی، کشمکش اور تناؤ کی صورتحال قائم ہوئی۔ بھارت چند ماہ قبل پاکستانی افواج اور ایئر فورس کے ہاتھوں اٹھائی جانے والی ہزیمت بھول نہیں پایا اور اس نے کنٹرول لائن کو ایک مرتبہ پھر گرم کرنے کیلئے دھماکہ کر ڈالا ہے مگر وہ یہ بھول گیا کہ بھارت کے جارحانہ عزائم کے جواب میں قوم کے اندر پایا جانے والا جذبہ اور ولولہ آج بھی قائم ہے اور پاکستان کے 22 کروڑ عوام اپنی بہادر مسلح افواج کی پشت پر کھڑے ہیں۔ اگر بھارت نے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی تو اس کے نتائج خود اس کیلئے سود مند نہ ہوں گے اور حالیہ تجربہ اس کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی تھا۔
بھارتی قیادت جو کل تک پاکستان کو عالمی تنہائی سے دو چار کرنے کی دھمکیاں دے رہی تھی اب نئی صورتحال میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان کیلئے دورہ امریکہ کی دعوت پر بوکھلاہٹ سے دو چار ہے اور وہ پاکستانی وزیراعظم کے دورہ امریکہ پر اثر انداز ہونے کیلئے خطہ میں ایک نئی صورتحال طاری کرنا چاہتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خارجہ آفس بھارت کے مکروہ عزائم اور جارحانہ طرز عمل کے خلاف عالمی محاذ گرم کرے اور دنیا کو بتائے کہ بھارت کس انداز میں علاقائی امن پر اثر انداز ہو رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے اندر کشمیریوں کی نسل کشی میں مصروف ہے۔ جہاں تک وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کا تعلق ہے تو امریکی قیادت کو باور کرایا جائے کہ پاکستان اگر افغانستان میں امن کیلئے امریکہ طالبان مذاکرات یقینی بنا رہا ہے اور پر امن افغانستان کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے تو امریکہ کو بھی چاہئے کہ اس خطہ میں دیر پا امن کیلئے بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے اور کشمیر جیسے سلگتے ایشوز سمیت دیگر معاملات پر مذاکرات کا اہتمام کرے۔
تجزیہ سلمان غنی