اسلام آباد: (دنیا نیوز) جج ارشد ملک مبینہ ویڈیو کیس میں وفاق نے دائر درخواستوں کی مخالفت کر دی۔ اٹارنی جنرل نے کہا قانونی فورم دستیاب ہے تو کمیشن بنانے کی ضرورت نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ویڈیو سے جج کے موقف کا ایک حصہ درست ثابت ہوگیا۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے جج مبینہ ویڈیو کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا اٹارنی جنرل صاحب ! گزشتہ سماعت پر آپ ہیگ میں تھے، تجویز دیں، عدالت کو اس موقع پر کیا کرنا چاہیئے ؟ اٹارنی جنرل انور منصور نے کہا درخواستوں میں جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا کی گئی ہے، ایک استدعا جج ارشد ملک کے خلاف کارروائی کی بھی ہے، تمام حقائق عدالت کے سامنے آچکے ہیں، جج ارشد ملک بیان حلفی بھی جمع کرا چکے، جج ارشد ملک نے ایف آئی اے کو شکایت بھی جمع کرا رکھی ہے، شکایت الیکٹرونک کرائم ایکٹ کے تحت درج کرائی گئی۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ تحقیقات جاری ہیں، ایف آئی اے ملزمان تک پہنچ رہی ہے، یو ایس بی میں موجود ویڈیو حاصل کر لی گئی، میاں طارق سے برآمد ویڈیو بلیک میلنگ کیلئے استعمال ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا ویڈیو سے جج کے موقف کا ایک حصہ درست ثابت ہوگیا، ویڈیو میں کیا ہے ہم نہیں جانتے، ایک ویڈیو کی تصدیق کرائی گئی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا پاکستان میں کوئی لیبارٹری ویڈیو کی فرانزک نہیں کرسکتی، ایف آئی اے نے اپنے طور پر فرانزک کیا، پاکستان میں آئی ایس او کی تصدیق شدہ لیبارٹری نہیں، ویڈیو 2000 سے 2003 کے درمیان بنائی گئی۔
اٹارنی جنرل انور منصور نے عدالت کو بتایا کہ اصل ویڈیو کیسٹ میں تھی، ریکوری یو ایس بی سے ہوئی، میاں طارق کی نشاندہی پر بیڈ کی ٹیبل سے ویڈیو برآمد ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا جج نے ایسی حرکت کی تھی تب ہی وہ بلیک میل ہوا۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا بطور جج ارشد ملک کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا ایک ویڈیو وہ بھی ہے جو پریس کانفرنس میں دکھائی گئی، کیا ایک ویڈیو سے جج بلیک میل ہوا ؟ اٹارنی جنرل نے کہا جج ارشد ملک نے ویڈیو کے کچھ حصوں کی تردید کی ہے۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ جج نے بتایا ناصر بٹ کے ساتھ 6 اپریل 2019 کو ملاقات ہوئی، جج کا استقبال نواز شریف نے کیا، ملاقات میں ناصر بٹ نے گفتگو کا آغاز کیا، جج نے پریس کانفرنس والی ویڈیو کے بعض حصوں کی تردید کی، ایک پہلو جج کی نوکری پر رہنے، دوسرا العزیزیہ کیس کے فیصلے کا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا جج کے مطابق نواز شریف سے ملاقات اپریل میں ہوئی، نواز شریف نے اپیل کب دائر کی تھی ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا نواز شریف کی اپیل بر وقت دائر ہوئی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا اپیل بر وقت دائر ہوئی تو جج نے اپریل میں جائزہ کیسے لیا ؟ دیکھنا ہوگا جج نے اپنا موقف ایمانداری سے دیا یا نہیں ؟ اٹارنی جنرل نے کہا جائزہ لینا ہوگا جج کا موقف کس حد تک درست ہے۔ چیف جسٹس نے کہا آڈیو اور ویڈیو کی ریکارڈنگ الگ الگ کی گئی تھی، پریس کانفرنس میں آڈیو اور ویڈیو کو جوڑ کر دکھایا گیا، آڈیو ویڈیو مکس کرنے کا مطلب ہے اصل مواد نہیں دکھایا گیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا پریس کانفرنس والی اصل ویڈیو برآمد کرنے کی کوشش جاری ہے۔
اٹارنی جنرل انور منصور نے عدالت کو بتایا کہ ناصر بٹ نے نواز شریف کے سامنے کہا جج نے دباؤ میں فیصلہ دیا، جج ارشد ملک نے اس بات کو وہاں مسترد کیا، جج نے نواز شریف کو حقائق بتائے، ناصر بٹ کی بات کی تردید کی، جج ارشد ملک کی بات سن کر نواز شریف ناراض ہوگئے، جج نے بیان حلفی میں کہا نواز شریف کے وکلا سے ملاقات ہوئی، کہا گیا فیصلے کے بعد جج ارشد ملک نواز شریف سے ملے، فیصلوں کے بعد میاں صاحب جاتی امرا میں کیوں تھے ؟ نواز شریف ضمانت پر بھی رہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا ایف آئی اے نے اصل ویڈیو برآمد کی ؟ 2003 کی ریکارڈنگ ہے جو اس وقت ڈیجیٹل نہیں تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ معاملے پر توہین عدالت کی کارروائی بھی تو کی جاسکتی ہے، توہین عدالت کی کارروائی چیئرمین نیب بھی کرسکتے ہیں۔ جسٹس عمر عطا نے کہا عدالت دونوں فریقین کے الزامات کی حقیقت جاننا چاہتی ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ ہم اندھیرے میں یا کسی کے کہنے پر چھلانگ نہیں لگائیں گے، کوشش کریں گے کی دانشمندی سے فیصلہ کریں اور ہمار بوجھ کسی کے پلڑے میں نہ پڑے، کوئی کمیشن یا پیمرا احتساب عدالت کا فیصلہ ختم نہیں کر سکتا، شواہد کا جائزہ لے کر ہائی کورٹ ہی نواز شریف کو ریلیف دے سکتی ہے، کیا جج کا سزا دینے کے بعد مجرم کے گھر جانا، اس کے رشتے داروں اور دوستوں سے گھر اور حرم شریف میں ملنا درست ہے ؟ جج کے کنڈکٹ کا جائزہ لے کر خود فیصلہ کریں گے۔