مشرف کیس: ہائیکورٹ کے فیصلے نے بساط ہی لپیٹ دی

Last Updated On 14 January,2020 08:39 am

لاہور: (دنیا نیوز) میزبان 'دنیا کامران خان کے ساتھ' کے مطابق گزشتہ ماہ اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے آئین سے سنگین غداری کیس میں ایک انوکھا فیصلہ دیا تھا جس میں سابق صدر اور سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا سنائی تھی اور عدالت کے سربراہ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا تھا کہ اگر پھانسی کی سزا سے پہلے پرویز مشرف انتقال کر جائیں تو قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کی لاش کو گھسیٹ کر اسلام آباد لائیں اور لاش کو 3 دن تک ڈی چوک پر لٹکایا جائے۔ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے نے خصوصی عدالت کے فیصلے کی بساط ہی لپیٹ دی۔ فیصلہ دینے والی خصوصی عدالت کے قیام کو ہی غیر آئینی و غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔

میزبان کے مطابق یہ لاہور ہائیکورٹ کا تاریخی فیصلہ ہے اور اب جنرل (ر) پرویز مشرف ملزم نہیں ہیں، ان کی پھانسی کی سزا کالعدم ہو گئی ہے۔ اس حوالے سے ممتاز قانون دان حیدر وحید نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے اپنے آئینی دائرہ اختیار کے تحت آرٹیکل 199 کے تحت کیس کی سماعت کی، خصوصی عدالت کی تشکیل سے متعلق یہ فیصلہ متوقع تھا۔ اس میں بنیادی بات یہی تھی کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کابینہ کی منظوری کے بغیر ہوئی ہے اور اس کا کوئی بھی فیصلہ بھی آئین و قانون کے خلاف ہے۔

ممتاز قانون دان حیدر وحید نے کہا کہ وفاقی حکومت اس کیس میں شکایت کنندہ ہے لیکن اس نے اپنی ہی شکایت کا دفاع نہیں کیا، عدالت نے یہ فیصلہ ٹیکنیکل وجوہات کے ساتھ میرٹ پر دیا ہے، یہ کہنا درست ہے کہ جنرل (ر) مشرف کا سنگین غداری کیس کا باب بند ہو گیا ہے، پرویز مشرف کی سزا کالعدم ہوگئی ہے، تاہم ری ٹرائل کا ابھی بھی موقع ہے گویا اس کیس کا ری اوپن بڑا مشکل نظر آتا ہے۔

میزبان کہتے ہیں کہ کراچی پی ٹی آئی کے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور ان کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم ان کی حکومت چھوڑ چکی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے لئے یہ امتحان کی گھڑی ہے، پی ٹی آئی نے وعدوں پر کراچی کا ووٹ لیا لیکن دیا کچھ نہیں، وقت ہے کہ حکومت کراچی کے عوام کی امیدوں پر پورا اترے۔ اس حوالے سے ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنونیئر عامر خان نے کہا ہے کہ اسد عمر کی آمد مذاکراتی عمل نہیں تھا یہ ایک ہفتہ پہلے طے شدہ میٹنگ تھی۔ انھوں نے کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کراچی کے ایشو کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی جا رہی ہے، ان کا کہنا تھا کہ خالد مقبول نے کابینہ چھوڑنے کا فیصلہ ایک دن میں نہیں کیا، ہم 17 ماہ سے حکومت سے بات کر رہے ہیں۔

عامر خان نے کہا کہ اس سے بلاول کی نیت کی عکاسی ہوتی ہے کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں ان کا خیال ہے وزارتوں کا لالچ دے دو اور توڑ لو ۔ ہمیں وزارتوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے ہم شہری علاقوں کی بہتری چاہتے ہیں، پیپلز پارٹی پہلے اپنا قبلہ درست کرے، ہم نے ان کے بیان کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔