لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان نے مصنوعی مہنگائی کے ذمہ دار ذخیرہ اندوزوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا حکم دیا ہے اور کہا ہے ہر صورت اشیائے صرف کی قیمتوں میں 15 سے 20 فیصد تک کمی کو یقینی بنایا جائے۔ وزیراعظم عمران خان کے احکامات اور جذبات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ بالآخر انہیں اس امر کا ادراک ہوا ہے کہ ملک مہنگائی کی آگ میں جل رہا ہے اور کوئی گرانفروشوں، ذخیرہ اندوزوں اور مافیاز پر ہاتھ ڈالنے کو تیار نہیں اور اب مہنگائی کی شرح ایک خاص حد پر پہنچنے کے بعد ملک بھر میں اسکے خلاف ردعمل کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور حکومت نے بھی اس کا نوٹس لیا ہے لہٰذا بنیادی سوال یہ ہے کہ گراں فروش اور ذخیرہ اندوز کون ہیں۔ ان کے خلاف کارروائی کی بنیادی ذمہ داری کس کی ہے اور وہ کون سی وجوہات ہیں جن پر مافیاز حکومت اور انتظامی مشینری کو خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں ہوتے اور حکومت کی جانب سے بنائی جانے والی پرائس کنٹرول کمیٹیوں کا کردار کس حد تک ہے۔
جہاں تک مہنگائی کے خلاف کارروائی اور ذمہ داری کا سوال ہے تو یہ بنیادی طور پر وفاقی حکومت کی نہیں صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبائی سطح پر موجود حکومتیں حکمرانی کے نظام کو موثر اور شفاف بنانے سمیت عام آدمی کی ریلیف کی براہ راست ذمہ دار ہیں مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ حکومت کو کیا کرنا چاہیے۔ حکومت کو اس کیلئے لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم اقدامات کرنا ہوں گے۔ موثر حکمت عملی بنانا پڑے گی۔ حکومت کی جانب سے پرائس کنٹرول کمیٹیوں کا تجربہ بھی قابل عمل نظر نہیں آ رہا۔ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کو گھناؤنے عمل میں انتظامی مشینری کی بھرپور تائید و حمایت حاصل ہوتی ہے۔ یہ نوکر شاہی اور حکام کے خرچ بھی اٹھاتے ہیں اور ان کی عیاشیوں میں بھی بھرپور معاونت کرتے ہیں لہٰذا کوئی ان پر ہاتھ ڈالنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔
اس صورتحال کے مستقل تدارک کیلئے وفاقی صوبائی سطح پر انتظامی ڈھانچہ میں بعض بنیادی تبدیلیاں لانا ہونگی اور افسر شاہی پر بہت زیادہ انحصار کرنے کے بجائے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو مہنگائی کے کنٹرول اور نگرانی کے نظام میں بنیادی کردار دیا جائے۔ جن کے پاس وسائل نہیں اور جن کے روزگار بھی مستقل بنیادوں پر نہیں ان کیلئے یوٹیلیٹی سٹورز کی تعداد بڑھا کر بھی بندوبست ہو سکتا ہے۔ جہاں تک وزیراعظم عمران خان کا مافیاز کے خلاف آپریشن کا حکم ہے تو یہ مافیا حکومت کے اندر بھی موجود ہے اور حکومت سے باہر بھی اور ان کا آپس میں گٹھ جوڑ چھپا ہوا نہیں ہے۔ اگر اس مرحلہ پر ان پر ہاتھ نہ پڑا اور ان کے معاملات سیدھے نہ ہوئے تو آ ئندہ یہ اس سے بھی بڑا بحران پیدا کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔
وزیراعظم عمران خان یہ ذہن میں رکھیں کہ یہ معاملہ اتنا سیدھا اور سادہ نہیں اور نہ ہی ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کوئی آسان کام ہے۔ اس کیلئے ایک بڑا آپریشن درکار ہے۔ مافیاز کے پورے نظام کو کمزور کرنا ہوگا اور یہ کام تنہا حکومت نہیں کر سکتی۔ اس کیلئے بہتر یہی ہے کہ حزب اختلاف سے بھی بات کی جائے کیونکہ مہنگائی کے اس رجحان نے سب کو پریشان کر رکھا ہے اور لوگ اب جمہوری سسٹم سے بھی مایوس نظر آ رہے ہیں۔ اگر حکومت اس مافیاز کا کھوج لگانے میں کامیاب رہتی ہے اور اس پر قابو پانے کیلئے موثر اقدامات ہوتے ہیں تو مہنگائی کا جن قابو آ سکتا ہے۔ عام آدمی کا اصل مسئلہ روٹی، روزگار ہوتا ہے مگر زمینی حقائق یہی ہیں کہ اس کیلئے روٹی کھانا اور روزگار چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گیا ہے اور اگر حکومت عام آدمی کیلئے ریلیف کی فراہمی کا باعث نہیں بنی تو پھر ایسی حکومتوں کا مستقبل کبھی تابناک نہیں ہوتا بلکہ یہ لڑکھڑاتی نظر آتی ہیں۔ لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ حکومت عوام کیلئے ریلیف کا بندوبست کرے اور معاشی ریلیف کیلئے ٹھوس حکمت عملی پر کاربند ہو اور جو پالیسی طے کرے اس پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ تبھی حکومت کو بھی سکھ مل سکے گا اور عام آدمی کی زندگی میں بھی استحکام آئے گا۔