لاہور: (دنیا نیوز) 8 مارچ 1907ء کو نیویارک کی ملبوسات بنانے والی صنعت سے منسلک خواتین نے پہلی بار 10 گھنٹے کام کرنے کے خلاف اور مزدوری کی اجرت میں اضافہ کیلئے آواز اٹھائی۔
احتجاج کیلئے سڑکوں پر آئیں تو پولیس نے ان پر سخت تشدد کیا۔ 1910ء میں ایک روسی ایکٹوسٹ خاتون کلارا زیکٹین نے 8 مارچ کے اس واقعہ کے دن پر عورتوں کے حقوق پر ایک کانفرنس کی اور 8 مارچ کو دنیا بھر میں محنت کش‘‘ خواتین کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا۔
پہلے یہ دن صرف سوشلسٹ ممالک میں منایا جاتا تھا مگر برطانیہ کے صنعتی انقلاب کے بعد یہ دن عورتوں کے اقوام متحدہ پر زور ڈالنے پر دنیا بھر کی خواتین کی جدوجہد کی علامت کے طور پر منایا جانے لگا۔ اب ساری دنیا کی عورتیں 8 مارچ کو عورتوں کی یکجہتی‘ برابری اور حقوق کے حصول کی جدوجہد کے دن کے طور پر مناتی ہیں کیونکہ اب یہ جدوجہد پوری انسانیت کے ساتھ جوڑی جا چکی ہے۔ عورتوں کو حق دینا دراصل سماج کو حق دینا ہے۔
پاکستان کا آئین تمام شہریوں کو، جن میں مردوں کے ساتھ پاکستانی خواتین بھی شامل ہیں‘ برابری کا حق دیتا ہے۔ پاکستان کی آبادی کا آدھا حصہ خواتین ہیں۔ جب تک خواتین کو برابر کا حق نہیں ملتا‘ خاص طور پر تعلیم‘ صحت‘ معاشی اور معاشرتی زندگی میں انہیں مردوں کے برابر کردار ادا کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا‘ اس وقت تک قائداعظم محمد علی جناحؒ کے وژن کے مطابق ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ قائداعظمؒ نے فرمایا تھا کہ دنیا کا کوئی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ قوم کے مردوں کے ساتھ خواتین بھی ملکی ترقی میں شانہ بشانہ حصہ نہ لیں۔‘‘
پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ ہمیں اپنی زراعت پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے دیہی علاقوں کو بھی شہری علاقوں کی طرز پر تمام سہولتیں دینا ہوں گی۔
دیہی علاقوں کی عورت مردوں کے مقابلے میں زیادہ کام کرتی ہے مگر اس کے کام کو گنا نہیں جاتا۔ خواتین کی شرح خواندگی دیہی علاقوں میں بہت کم ہے۔
وہاں علمی اور پیشہ ورانہ دونوں طرح کی تعلیم کے مواقع کو بہتر بنانا چاہیے جیسا کہ زراعت‘ حیوانات سے متعلق توسیعی خدمات میں خواتین کو شامل کیا جائے۔ دیہی علاقوں میں لڑکیوں کیلئے سکولوں کا قیام بے حد ضروری ہے۔
دیہی خواتین کی غربت کے خاتمہ کیلئے ایک پروگرام جفاکش‘‘ شروع ہوا تھا۔ اس پروگرام کا از سر نو آغاز بہت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہوم بیسڈ خواتین جیسے شہری علاقوں میں گھروں میں بیٹھ کر سلائی کڑھائی کا کام کرتی ہیں‘ اسی طرح ہماری دیہات کی بہنوں کو بھی یہ سہولت دی جائے۔ اس سے غربت کا خاتمہ ہو گا۔ نا صرف خواتین کی اقتصادی حالت بہتر ہو گی بلکہ پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہو گا۔
ان کو صحت مند ماحول دینے کی ضرورت ہے تاکہ اپنے علاقہ میں رہ کر کام کر سکیں۔ خاص طور پر پاکستان کی ایگروبیسڈ انڈسٹریز کو پابند کرنا چاہیے کہ وہ اپنی انڈسٹری شہروں کے بجائے دیہی علاقوں میں لگائیں جس سے ان کو سستا مزدور ملے گا۔ ہمارے یہی لوگ، جن میں خواتین بھی شامل ہیں‘ دیہی علاقوں سے روزگار کے لئے شہروں میں آتے ہیں جس کی وجہ سے حالات بھی خراب ہوتے ہیں۔
ان کو ان کے گھروں کے نزدیک کام ملنے میں آجر اور اجیر دونوں کا فائدہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کسانوں میں خواتین بھی شامل ہوں‘ کسان کمیٹیاں بنائی جائیں جس میں ان کو شامل کر کے نیشنل پالیسی تشکیل دی جائے۔
گرین ریوولیوشن، جو ہمارے وزیراعظم کے دل کے بہت قریب ہے‘ لاتے ہوئے بے زمین کسان مردوں اور خواتین کو حکومتی زمین دی جائے۔ اس کے ساتھ ان کو چھوٹے قرضے دیئے جائیں تاکہ وہ وہاں درخت بھی لگائیں اور سبزیاں بھی لگائیں۔ اسی طرح ایک ضلع ایک ہنر‘‘ کے حوالے سے علاقوں کے ٹریڈیشنل ورک کو پروموٹ کیا جائے۔
ان شاء اللہ! اگر ہم اپنے دیہات سدھار پروگرام کو صحیح طریقہ سے بروئے کار لا سکیں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کی محنت کش خواتین چاہے وہ مزدور ہوں‘ کسان ہوں‘ ٹیچر ہوں‘ نرس ہوں‘ ڈاکٹر ہوں‘ وہ اس ملک کے بارے میں قائداعظمؒ کے خواب کو پورا کریں گی۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم اپنی خواتین کو ان کا حق دینا شروع کر دیں۔ دراصل یہ پاکستان کے سماج کو حق دینا ہے۔ جیسے جیسے آپ پاکستان کی عورت کو حقوق دیں گے‘ ویسے ویسے ہمارے خواب پورے ہوں گے اور پاکستان کی معیشت بہتر ہو گی۔
اب دہر میں بے یارومددگار نہیں ہم!
پہلے کی طرح بے کس‘ لاچار نہیں ہم!!
آتا ہے ہمیں اپنے مقدر کو بنانا!
تقدیر پہ شاکر پسِ دیوار نہیں ہم!!
(حبیب جالب)
تحریر : مہناز رفیع