لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) لداخ کے ایشو پر چین اور بھارت کے درمیان معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ چکے ہیں۔ چین نے واپس جانے سے انکار کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ یہ علاقہ بھارت کا نہیں اور بھارت کی بدنیتی آشکار ہو چکی ہے جبکہ بھارتی حکومت اور اس کا میڈیا اس حوالے سے شدید بوکھلاہٹ سے دوچار ہے۔ بھارت کی جانب سے متنازعہ علاقہ میں ٹینکر بھجوانے کے باوجود وہ یہاں کوئی غیر معمولی صورتحال پیدا کرنے سے گریزاں ہے۔ البتہ مذکورہ تنازع کے باعث چین اور بھارت کے درمیان معمول کے تعلقات بری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔ اس امر کا امکان بھی پایا جا رہا ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان طے شدہ دورے بھی منسوخ ہو جائیں۔
لداخ پر کس کا موقف درست ہے اور اس کشمکش اور محاذ آرائی کی صورتحال میں پاکستان کہاں کھڑا ہوگا۔ اگر علاقائی صورتحال میں لداخ پر کھڑے ہونے والے محاذ کا جائزہ لیا جائے تو ایک بات تو کھل کر سامنے آگئی ہے کہ بھارت اس خطہ میں مسائل کے حل کے بجائے مسائل کی وجہ بنتا جا رہا ہے اور اس تنازع کے باعث اس کا علاقائی خودارادیت کا خواب دھرے کا دھرا رہ گیا ہے۔ لداخ اور سکم بارڈر پر بھارت اور چین میں جاری جھڑپوں کے باعث بھارت کو منہ کی کھانا پڑی ہے اور چینی افواج نے بھارت کے عزائم کو بھانپتے ہوئے وہاں اپنی افواج میں اضافہ کر دیا ہے اور چینی فوج یہاں بنکر بنا رہی ہے جبکہ دوسری جانب بھارت بھی اپنی فوجی تیاریوں میں مصروف ہے۔ البتہ وہ اب جنگ میں پیش رفت میں پہل کیلئے تیار نہیں، بھارت اور چین کے درمیان یہ تنازع نیا نہیں۔
1962 کی جنگ کے بعد یہ تنازع مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔ اس سے قبل 2017 میں انڈیا اور چین کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے مختلف مقامات پر دونوں جانب افواج میں اضافہ دیکھا جا رہا تھا جو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا اور اب یہ نئی جھڑپیں شدید تر ہوتی جا رہی ہیں۔ اس سے قبل انڈیا کا کہنا تھا کہ چین کے کچھ خیمے وادی گالوان کے ساتھ دیکھے گئے ہیں۔ اس کے بعد انڈیا نے بھی اپنی افواج کی تعداد میں اضافہ کر ڈالا لیکن چین اپنی حدود میں تعمیرات پر خاصا سیخ پا ہے اور وہ ایک انچ پر بھی کمپرومائز کرنے کو تیار نہیں۔
دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ خود امریکا پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کنٹرول لائن پر پیداشدہ صورتحال پر یہ کہتا نظر آ رہا ہے کہ 2003 کے جنگ بندی معاہدے پر ہر حال میں عمل پیرا رہا جائے لیکن وہ یہ نہیں دیکھ رہا کہ اس کنٹرول لائن کو بھارت نے اپنے جارحانہ طرز عمل کے باعث آگ اور خون کی لکیر بنا رکھا ہے اور اس کی جانب سے سینکڑوں بار اس کی خلاف ورزی کے بعد یہ معاہدہ عملاً ہوا میں تحلیل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ یہ موقف امریکا کی ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز کی جانب سے آیا اور اب انہیں یہ خیال اس وجہ سے آ رہا ہے کہ بھارت کی تمام ہمسایوں کے ساتھ کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے اور چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی پر اسے بھی تشویش ہو رہی کیونکہ چین کا لہجہ سخت ہونے کے باعث یہ سمجھا جا رہا ہے کہ وہ اس ایشو پر بھارت کو مزا چکھائے بغیر خاموش نہیں ہوگا۔
نیپال کے ساتھ بھی بھارت کا تنازع شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور نیپال کی حکومت بھی بھارت کو آنکھیں دکھاتی نظر آ رہی ہے۔ پاکستان کے ساتھ بھی بھارت کے تنازعات تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ یہ صورتحال کسی بھی وقت دھماکا خیز ہو سکتی ہے اور خصوصاً چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ سی پیک کے زیرو پوائنٹ کو ختم کرنے کیلئے گلگت بلتستان کی مہم جوئی بھی کسی تصادم کی بنیاد بن سکتی ہے۔ اس مرحلہ پر امریکا کی خواہش یہ ہوگی کہ کسی طرح پاکستان، چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی نیوٹرل ہو جائے، پاکستان کو اس کا خمیازہ 1965 کی جنگ میں بھگتنا پڑا تھا۔ اس جنگ میں چین نے پاکستان کو کشمیر محاذ گرم کرنے کا مشورہ دیا تھا جو پاکستان نے قبول نہیں کیا تھا اور اس وقت کے حکمران امریکی جھانسے میں آگئے تھے جنہوں نے پاکستان کو کشمیر کا مسئلہ بات چیت کے ذریعہ حل کرنے میں اپنے کردار کی یقین دہانی کرائی تھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے نہ صرف اس ایشو سے صرف نظر برتا بلکہ اس نے علاقائی صورتحال میں اپنا وزن بھارت کی جانب ڈال دیا۔
بھارت نے کشمیر جیسے سلگتے مسئلہ کے حل پر ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آزادی کی اس تحریک کو طاقت اور قوت کے ذریعہ دبانے اور کشمیریوں کی آواز کو بند کرنے کیلئے ان کی نسل کشی کا سلسلہ شروع کیا جو اب تک جاری ہے لہٰذا اس مرحلہ پر امریکا پھر یہ کوشش کرے گا کہ بھارت کو اس صورتحال سے بچانے کیلئے اسے دو محاذوں میں نہ الجھانے کی پالیسی اختیار کرے۔ یہی وجہ ہے کہ چین کی طرف سے بھارت پر آنے والے دباؤ کے بعد امریکا کو یہ خیال آیا کہ پاکستان بھارت کشیدگی میں کمی اور کنٹرول لائن پر امن کے قیام کو یقینی بنایا جائے، اس کا پس منظر پاکستان نہیں اور نہ ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا تنازع ہے بلکہ چین کے مقابلہ میں ہندوستان کیلئے آسانیاں پیدا کرنا ہے لہٰذا ہمیں ابھی سے سوچ و بچار شروع کر دینی چاہئے کہ کسی بھی بڑے تصادم کے نتیجہ میں ہمیں غیر جانبدارانہ رہنا ہے یا اپنے متنازعہ ایشو پر بھارتی ہٹ دھرمی اور کنٹرول لائن پر اس کی جانب سے پیدا شدہ صورتحال پر اس کے خلاف دباؤ بڑھانے کی پالیسی اختیار کرنی ہے۔ یہ فیصلہ علاقائی صورتحال اور اس علاقہ کے سلگتے ایشو میں بنیادی اہمیت کا حامل ہوگا لیکن اس کیلئے ہمیں کسی کے دباؤ اور مفادات کو بروئے کار لانے اور سات سمندر پار دیکھنے کے بجائے اپنے اور اپنے علاقائی مفادات کو ترجیح دینا ہوگی۔