مودی مقبوضہ کشمیر میں ہندو اکثریت قائم کرنا چاہتا ہے

Last Updated On 11 June,2020 09:47 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) لائن آف کنٹرول کی ایک جانب بھارتی افواج سول آبادیوں کو نشانہ بنا کر غیر معمولی اور ہنگامی صورتحال طاری کیے ہوئے ہیں تو لائن آف کنٹرول کے دوسری جانب مظلوم اور معصوم کشمیری نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ عروج پر ہے۔ ورکنگ باؤنڈری پر سول آبادیوں کو نشانہ بنانے کے افسوسناک عمل پر تو بھارتی سفارتکاروں کو دفتر خارجہ بلا کر ان کے اس طرزعمل پر احتجاج کیا جاتا ہے مگر متنازعہ اور مقبوضہ کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ جیسے سفاک اور غیر انسانی عمل پر کوئی احتجاج بھی کرے تو کہاں کرے۔ اس لئے کہ یہ بھارت کی ریاست کی طے شدہ حکمت عملی کا شاخسانہ ہے اور وہ مقبوضہ وادی میں آزادی کشمیر کی جدوجہد کا مقابلہ اب صرف اور صرف بندوق کو بروئے کار لا کر کر رہا ہے اس لئے کہ اس کے پاس اب کوئی دلیل ہے نہ جواز، اور وہ کشمیریوں کی آواز کو کچلنے پر مصر ہے لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک جانب جب دنیا کورونا جیسی وبا کی تباہ کاریوں سے نبردآزما ہے اور مسئلہ انسانیت کی بقا کا پیدا ہو چکا ہے تو دوسری جانب بھارت کورونا سے صرف نظر برتتے ہوئے اقلیتوں اور خصوصاً کشمیریوں کیلئے کورونا وائرس کا کردار ادا کر رہا ہے۔

ایسا کیوں ہے ؟ بھارت کے اس سفاک اور فاشسٹ طرز عمل کا آخر دنیا کیونکر نوٹس نہیں لے رہی اور خود پاکستان کا ردعمل اس حوالے سے کتنا حقیقت پسندانہ ہے جو بھارت پر دباؤ کا باعث بنتا ہے۔ بھارت کے طرزعمل خصوصاً لائن آف کنٹرول پر اس کا کردار یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ سب کچھ نریندر مودی سرکار کی طے شدہ پالیسی کا شاخسانہ ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے اندر جاری ریاستی دہشت گردی اور انسانی جرائم کی پردہ پوشی کیلئے کنٹرول لائن پر غیر معمولی صورتحال طاری رکھی جائے تاکہ دنیا کی نظر اس کے مقبوضہ وادی میں شرمناک اور مذموم کردار پر نہ پڑے اور وہ کشمیریوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھے۔ اس نسل کشی کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر کے یہاں ہندو اکثریت قائم کرنا چاہتا ہے جبکہ کشمیر کے اندر جاری آزادی کی تحریک کو کچلنے کیلئے وہ نوجوانوں کی بلا امتیاز ٹارگٹ کلنگ کر رہا ہے۔ اسے اس امر کی کوئی پرواہ نہیں کہ اس کے اس غیر انسانی سلوک پر دنیا اسے کیا کہے گی یا پاکستان اس بنا پر میدان میں آئے گا۔ کوئی دن ایسا نہیں جا رہا کہ یہاں سے نوجوانوں کی شہادتوں کی اطلاعات نہ آتی ہوں۔

یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ آزادی کی اس تحریک کیخلاف دنیا بھر کے انسانی حقوق کے اداروں اور عالمی قوتوں کو جس طرح آواز اٹھانی چاہئے تھی وہ نہیں اٹھائی گئی اور بھارت اسے اپنے لئے کھلی چھٹی سمجھتے ہوئے نہتے کشمیریوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ رہا ہے اور کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے کیلئے تیار نہیں اور پاکستان کی جانب سے بھی جیسا ردعمل ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہوا۔ محض ٹویٹس اور مذمتی بیانات کے ذریعہ احتجاج ریکارڈ کروانے کی روایت پر عمل پیرا ہے۔

جہاں تک سفارتی احتجاج ریکارڈ کروانے کی روایت کا تعلق ہے تو یہ دباؤ مہذب ممالک کا مہذب ممالک پر کارگر ہوتا ہے جب تک احتجاج کے ساتھ ردعمل کے جواب میں ردعمل کا خوف نہ ہو تو یہ روایت کارگر نہیں ہوتی۔ یہی سلسلہ پاکستان بھارت کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہے جبکہ بھارت کا علاج وہ ہے جو لداخ میں متنازعہ سڑک کی تعمیر پر چینی فوج نے بھارتی سینا کی ٹھکائی کر کے دیا اور پھر بھارت سرکار اور اس کی سینا کی قیادت نے خاموشی میں ہی اپنا بھلا سمجھا اور  چوں  نہیں کی۔