لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو مسترد کر دیا گیا اس طرح سے کہا جا سکتا ہے کہ ریفرنس کے جسٹس قاضی عیسیٰ تو بری ہو گئے البتہ ان کی اہلیہ کے ٹیکس معاملات پر گیند اب ایف بی آر کے کورٹ میں آ گئی اور اس پر ایف بی آر کی تحقیقات اور رپورٹ پر معاملہ پھر سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس جائے گا۔ ریفرنس کے حوالہ سے فیصلہ متفقہ آیا۔ عدالت عظمیٰ نے فیصلہ آئین قانون کی بالادستی اور انصاف کی بنیاد کو بروئے کار لاتے ہوئے کیا لیکن اب مذکورہ عدالتی فیصلہ پر بہت سی آرا کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ریفرنس کے حامی اس فیصلہ کو تو آئین قانون کے مطابق تسلیم کرتے ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ معاملہ ختم نہیں ہوا۔ اب فیصلہ ایف بی آر کی رپورٹ پر ہوگا جس سے معاملات کا پتہ چلے گا جبکہ جسٹس قاضی عیسیٰ کے موقف کے حامی اس فیصلہ کو عدالتی تاریخ کا اہم فیصلہ قرار دیتے ہوئے جہاں اس بدنیتی کو ایکسپوز کرتے نظر آتے ہیں جو ریفرنس کا باعث بنی وہاں ان کا کہنا ہے کہ یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ریفرنس میں ٹارگٹ جسٹس فائز عیسیٰ تھے یا جائیدادیں۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے ایک ساتھی جج پر لگنے والے الزامات اور ان کی جائیدادوں پر آنے والے تحفظات کو مسترد کیا مگر اب ان کی اہلیہ اور بچوں کے ٹیکس معاملات کو ایف بی آر کی طرف بھجوانے کا عمل ایک نئی صورتحال طاری کر سکتا ہے اسلئے مذکورہ فیصلہ کے بعد سامنے آنے والی آرا کی روشنی میں عدالتی فیصلہ کو سمارٹ فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے جس کے ذریعہ جسٹس قاضی عیسیٰ تو بری ہو گئے مگر ان کی اہلیہ اور بچوں کے معاملات خود ایک حکومتی ادارے کی زد میں آ گئے لہٰذا یہ تلوار ان کے خاندان پر لٹکتی رہے گی اور خود جسٹس قاضی عیسیٰ جیسا جج اپنی پیشہ و رانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے حوالہ سے دباؤ میں رہے گا۔
جسٹس قاضی عیسیٰ نے بار بار کورٹ سے اپیل کی کہ وہ فیصلہ ہر حوالہ سے میرٹ پر کریں۔ بعض حلقوں کے مطابق ٹیکس کے معاملات کو اس طرح کونسل میں لانا درست نہیں ہوگا۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ جس کیس میں جسٹس قاضی عیسیٰ کی اہلیہ فریق ہی نہیں اب وہ فریق بن چکی ہیں۔ البتہ کچھ حلقوں کی رائے ہے کہ ٹیکس معاملات شاید کسی بڑے اپ سیٹ کا باعث نہ بن سکیں۔ عدالت عظمیٰ نے ریفرنس کو نمٹا کر جو فیصلہ دیا اس فیصلے کی سپرٹ سب جانتے ہیں اور یہ فیصلہ ہر حوالہ سے تاریخی فیصلہ ہے لیکن اگر فیصلہ کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو انصاف پر مبنی اس فیصلہ کے اثرات سیاسی سطح پر ضرور ظاہر ہوں گے اور حکومت شاید اسے ہضم نہ کر سکے لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ اب ایف بی آر کی سطح پر تحقیقاتی عمل بعض سیاسی اور قانونی حلقوں کی زد میں آئے گا۔ حکومت کی جانب سے وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر کی پریس ٹاک کو عدلیہ کے کردار اور عزت و تکریم کے حوالہ سے اہم قرار دیا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے عدلیہ کو ٹارگٹ کرنے کی بجائے فیصلہ کی تفصیلات پر اپنا موقف پیش کیا اور کہا کہ حکومت اس فیصلہ سے مطمئن ہے۔
حکومت کی جانب سے عدالتی فیصلہ مقدم قرار دینے کے باوجود انہیں یہ مان لینا چاہئے کہ ان کی اس کیس کے حوالہ سے تسلی ہوئی ہے اور شکر یہ ہے کہ ایک حاضر سروس جج کے خلاف آنے والے اس ریفرنس میں ان کی بریت کے فیصلہ سے نہ صرف عدلیہ سرخرو ہوئی بلکہ عدلیہ خود عوام کو بھی یہ پیغام دینے میں کامیاب رہی کہ انصاف کی فراہمی کے عمل میں کوئی اس پر اثرانداز نہیں ہو سکتا اور وہ آئین و قانون کے تابع رہتے ہوئے اپنا بھرپور کردار ادا کرتی رہے گی۔