لاہور: ( تجزیہ: سلمان غنی) پائلٹس کے مشکوک لائسنس کے خلاف تحقیقات تو مکمل نہیں ہو سکی البتہ اس حوالہ سے وفاقی وزیر غلام سرور خان کے اسمبلی فلور پر دئیے جانے والے بیان کے اثرات خود قومی ایئر لائن پر آنا شروع ہو چکے ہیں اور یورپی یونین و برطانیہ کی جانب سے پی آئی اے کی پروازوں پر چھ ماہ کی پابندی لگ چکی ہے جبکہ متحدہ عرب امارات نے بھی مذکورہ صورتحال پر وضاحت کیلئے مکتوب بھجوا دیا ہے جو اپنا فیصلہ اس پر آنے والی وضاحت کے بعد کریں گے۔
مذکورہ صورتحال کے باعث نہ صرف قومی ایئر لائن کی ساکھ کے آگے سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ہے بلکہ پائلٹس کے ساتھ ساتھ گراؤنڈ انجینئرز اور دیگر ٹیکنیکل ماہرین کے لائسنس بھی مشکوک ہو چکے ہیں اور اس سارے عمل کے نتیجہ کے طور پر پی آئی اے کے ریونیو کو ناقابل تلافی نقصان کا احتمال ظاہر کیا جا رہا ہے۔ پی آئی اے کے ہزاروں ملازمین کا مستقبل بھی داؤ پر لگ گیا ہے۔ اس صورتحال پر کئی سوالات کھڑے نظر آ رہے ہیں کہ یہ سارا عمل کیونکر ہوا۔ کیا وفاقی وزیر کو بغیر کسی تحقیقاتی عمل کے ایسا بیان اسمبلی کے فلور پر دینا چاہئے تھا۔ کیا واقعتاً پائلٹس میں 33 فیصد ایسے ہیں جن کے لائسنس مشکوک ہیں اور اس بیان کے مضر نتائج کے بعد کیا ان کے اس عہدے پر باقی رہنے کا کوئی جواز ہے۔ کیا یورپی یونین اور برطانیہ کی جانب سے لگائی جانے والی پابندی کا خاتمہ ممکن ہے اور یہ کہ قومی ایئر لائن کا مستقبل کیا ہوگا ؟۔
اس امر پر دو آرا نہیں کہ جو روٹس بند ہو رہے ہیں پی آئی اے کے ریونیو میں ان کا بڑا کردار تھا اور اب وفاقی وزیر ہوا بازی کے اسمبلی میں بیان کے اثرات نے صرف پائلٹس کو ہی مشکوک نہیں بنایا بلکہ سول ایوی ایشن سے لائسنس کے حامل تمام انجینئرز بھی قابل مواخذہ ٹھہرے ہیں۔ ان کی چھان بین بھی شروع ہو چکی ہے۔ وفاقی وزیر کے بیان سے یہ تاثر ابھرا جیسے پائلٹس جائز ناجائز طریقہ سے لائسنس خرید کر جہاز اڑاتے نظر آ رہے ہیں۔ ملک میں ان کے اس بیان کے اثرات کیا ہوئے اس حوالہ سے دو آرا ہیں البتہ پاکستان سے باہر بیان کو انتہائی سنجیدگی سے لیا گیا اور سی این این’ بی بی سی سمیت بین الاقوامی میڈیا نے اس کو غیر معمولی کوریج دے کر پاکستان کی قومی ایئر لائن کی ساکھ پر سوالیہ نشانات کھڑے کر دئیے۔
جہاں تک پائلٹس کی بھرتی کا تعلق ہے تو یقینا ماضی میں اس مجرمانہ غفلت کے ذمہ دار حکمران ہوں گے اور ایسے سفارشیوں کو معاف نہیں کرنا چاہئے ۔بدقسمتی یہ ہے پائلٹس کے لائسنس کے ایشو پر پیدا شدہ صورتحال اس وقت رونما ہوئی جب پی آئی اے کے حالات بہتری کی جانب گامزن تھے۔ طیارے کو پیش آنے والے سانحہ سے بڑا حادثہ یہ ہو گیا کہ پورے ادارے کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ یورپی یونین ایئر سیفٹی ایجنسی کی جانب سے بھیجے گئے مکتوب میں فلائٹ آپریشن کے حوالہ سے کہا گیا ہے سابقہ دو میٹنگز جو 13جون 2019 اور 3 ستمبر 2020 کو ہوئیں آپ کو فلائٹ سیفٹی کے حوالہ سے مجوزہ چھ نکات پر عملدرآمد کیلئے کہا گیا لیکن عملدرآمد نہ ہونے کے باعث 17 جون کو اس حوالہ سے حتمی وارننگ جاری کی گئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی آئی اے کے فلائٹ آپریشن کے حوالہ سے ایاسا کے تحفظات پہلے سے تھے جو دور نہ ہو سکے اور اب وفاقی وزیر کے بیان نے انہیں اس پابندی کا جواز مہیا کر دیا۔
پابندی کے چھ ماہ سے قبل خاتمہ کیلئے پی آئی اے کو بہت کچھ کرنا ہوگا۔ پائلٹس کے لائسنس کی تصدیق کے ساتھ ان ساری تجاویز پر عملدرآمد کرنا ہوگا جو ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے پی آئی اے کو دی تھیں۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی وزیر غلام سرور خان کی نااہلی کی درخواست یہ کہتے ہوئے نمٹا دی ہے اس حوالہ سے فیصلہ کا اختیار وزیراعظم اور کابینہ کا ہے۔ اس طرح سے گیند وفاقی حکومت کے کورٹ میں آ گئی ہے۔ اچھا ہوا وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں کابینہ اجلاس میں پائلٹس کے خلاف کارروائی کیلئے تفصیلی سمری دوبارہ طلب کر لی گئی ہے لیکن کیا وزیر کے بیان اور نقصان پر بھی غور ہوا۔ اس بارے کچھ سامنے نہیں آیا۔