لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) گندم کی بھرپور فصل کے باوجود آٹے کی قیمتوں کا بحران حکومت کیلئے بڑا امتحان بنا ہوا ہے اور ڈائریکٹر فوڈ کی سطح کا یہ عمل آج گورننس کے بحران کے باعث وزیراعظم عمران خان کی سطح پر حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نہ ذخیرہ اندوز پکڑے جا رہے ہیں اور نہ منافع خوروں کے گرد احتساب کا شکنجہ کسا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت ایک روز فلور ملز مالکان سے اپنے کامیاب مذاکرات کا دعویٰ کرتے ہوئے پنجاب میں آٹے کا تھیلا 850 روپے کرنے کا اعلان کرتی ہے تو دوسرے روز پھر فلور ملز والے اس فیصلہ کا تمسخر اڑاتے ہوئے اس پر آٹا مہیا کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں پھر حکومت دوبارہ مذاکرات کا ڈول ڈالتی ہے تو اعلان ہوتا ہے کہ مذاکرات پھر کامیاب ہو گئے اور اب 20 کلو آٹا کا تھیلا 860 روپے میں ملے گا جس کے تحت آٹے کی قیمت 43 روپے فی کلو ہوگی اور اب دیکھنا یہ ہے کہ منافع خوروں کے ہاتھوں گیارہ سو روپے سے زائد مارکیٹ ہونے والا 20 کلو کا تھیلا کیا 860 روپے میں مہیا ہو پاتا ہے۔
یہ اب پھر پنجاب کا بڑا امتحان ہوگا۔ مذکورہ صورتحال کے پیش نظر یہ بات سمجھنا اور جاننا ضروری ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک جانب تو اضافی گندم کی خریداری کے ڈونگرے بجائے جا رہے ہیں، دوسری جانب مسائل اور مہنگائی زدہ عوام مہنگے آٹے کے ہاتھوں خوار ہو رہے ہیں۔ حکومت نے اپنے کریڈٹ کیلئے گندم کی خریداری کا ٹارگٹ حاصل کیا اور فلور ملز کو پھر مہنگے داموں گندم مارکیٹ سے خریدنا پڑی۔ گندم اور آٹے کے اس عمل میں طے شدہ فارمولا کے مطابق ایک من گندم پر آٹا کی فراہمی کے عمل تک دو سو روپے فی من کے اخراجات رکھتے تھے جن میں بجلی کا خرچ اور دیگر ضروریات شامل ہوتی تھیں۔ فلور ملز مالکان اس فارمولے کو آج کے حالات میں اضافی اخراجات اور خصوصاً بجلی کی قیمت میں اضافہ کے باعث ناقابل عمل سمجھتے ہیں اور حکومتی دباؤ کے باعث مذاکرات تو کرتے ہیں مگر عملاً اس قیمت پر آٹے کی فراہمی کیلئے تیار نہیں باوجود مذاکراتی عمل کی کامیابی کے۔ اب بھی یہ بحران ٹلتا نظر نہیں آ رہا اور فلور ملز کو ابھی سے گندم ریلیز کرنے کا عمل ظاہر کر رہا ہے کہ آنے والے وقت میں بحران بڑھتا جائے گا اور نومبر دسمبر میں عروج پر ہوگا۔
جہاں تک بیرون ملک سے گندم کی درآمد کا تعلق ہے تو بیرون ملک سے جو سستی گندم درآمد کی جاتی ہے وہ بھی ساڑھے سولہ سے سترہ سو من میں پڑے گی اور حکومت کی طے شدہ پالیسی کے مطابق یہ پرائیویٹ سیکٹر منگوائے گا۔ پرائیویٹ سیکٹر مہنگی گندم منگوا کر سستا آٹا کیسے فراہم کرے گا۔ اب بھی حکومت اور فلور ملز کے درمیان آٹے کی قیمتوں میں 860 روپے میں 20 کلو کے تھیلے کی فراہمی کا عمل کارگر نہیں ہوگا۔ سارے کام دباؤ سے ہونے والے نہیں۔ وزیراعظم عمران خان تو پرانی قیمتوں میں آٹا کی فراہمی کی بات کر رہے ہیں مگر عملاً یہ ممکن نظر نہیں آ رہا لہٰذا قابل عمل فارمولا بنا کر قیمت کا تعین کر کے بھی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ ان افسران کے مطابق آٹے کی قیمتوں میں اضافے سے ہی مسئلہ حل ہوگا ورنہ حکومت آٹے کے بحران میں الجھی رہے گی اور پٹرولیم کی طرح حکومت کی جانب سے کمی اور بعدازاں اضافہ کا عمل حکومت کی پسپائی اور رسوائی کا باعث بنے گا لہٰذا حقیقت پسندانہ حل نکال کر ہی اس بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے اور آج سیاسی سطح پر بنیادی سوال یہ اٹھتا نظر آ رہا ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کی حیثیت سے گندم کی وافر خریداری کے باوجود آٹا بحران قابو میں نہیں آتا تو اس کا براہ راست اثر روٹی پر پڑے گا اور غریب کا پیٹ صرف روٹی سے ہی بھرتا ہے اور غریب کا بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ خود تو فاقوں سے گزارا کر لیتا ہے مگر اپنے بچوں کو بھوکا مرتا نہیں دیکھ سکتا اور روٹی کی عدم فراہمی اور فاقہ کشی جرائم کو فروغ دیتی ہے لہٰذا تمام تر بحرانوں کے باوجود اگر روٹی غریب عوام کی دسترس سے باہر ہوتی ہے اور اس کا چولہا بجھتا ہے تو پھر اس کا ردعمل خوفناک ہوتا ہی کیونکہ بھوک سڑکوں پر نکل آئے تو پھر اس پر امن و امان کے ذمہ دار ادارے بھی قابو نہیں پا سکتے۔
یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے آٹے کی قیمتوں کا نوٹس لیا ہے اور غریب عوام کو سستا آٹا فراہم کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ بحران کے سدباب کیلئے جس کی ذمہ داری ہے وہ بحران کی وجوہات سمجھے بغیر حکومتی قوت کو بروئے کار لا کر مسئلہ کا حل چاہتے ہیں اور مسئلہ کے فریق حکومتی رعب و دبدبہ میں آ کر بظاہر تو مذاکرات اور اس کے نتیجہ میں ہونے والے تصفیہ پر ہاں کر دیتے ہیں مگر اپنے منافع میں کمی لانے کو تیار نہیں۔