اسلام آباد: (دنیا نیوز) حکومت نے اپوزیشن کو تجویز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی مدت ملازمت میں توسیع چاہتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے نیب قانون کا مجوزہ ترمیم مسودہ اپوزیشن کو پیش کر دیا، چیئرمین پارلیمانی کمیٹی برائے قانون سازی شاہ محمود قریشی نے مسودہ اپوزیشن کو دیئے جانے کی تصدیق کردی۔ حکومت کی طرف سے نیب قانون میں متعدد ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔
حکومتی تجویز میں کہا گیا ہے کہ عوامی عہدہ اور سرکاری عہدہ رکھنے والے پر نیب کیس اسی صورت بنے گا جب ناجائز فائدہ حاصل کرنے کا ثبوت ہو۔ عوامی عہدہ رکھنے والے کے کسی کام کو نیک نیتی سے کرنے پر نیب کیس نہیں بن سکے گا، چیئرمین ڈپٹی چیئرمین اور پراسیکیوٹر جنرل کی مدت ملازمت میں توسیع کی جاسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کرپشن مقدمات پر 30 دن میں فیصلہ ممکن نہیں: چیئرمین نیب کا سپریم کورٹ میں جواب جمع
تجاویز میں مزید کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب کی مدت ملازمت موجودہ نیب قانون کے مطابق چار سال ہے ڈپٹی چیئرمین اور پراسیکیوٹر جنرل کی مدت ملازمت تین سال ہے، حکومت چیئرمین ڈپٹی چیئرمین اور پراسیکیوٹر جنرل کی مدت ملازمت میں توسیع چاہتی ہے۔
حکومتی تجویز کے مطابق عدالت ملزم کو ریفرنس کی نقول لازمی دے گی، لیوی ٹیکس اور محصولات کے معاملات نیب سے متعلقہ اداروں کو منتقل ہوجائیں گے۔
نیب قانون میں ترمیم کا پس منظر
یاد رہے کہ گزشتہ سال 27 دسمبر کو وفاقی کابینہ نے بذریعہ سرکولیشن قومی احتساب بیورو (نیب) ترمیمی آرڈیننس 2019 کی منظوری دی تھی جس کے بعد صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی آرڈیننس پر دستخط کر دیے تھے۔
صدر مملکت کے نیب ترمیمی آرڈیننس پر دستخط کے بعد یہ آرڈیننس نافذ العمل ہوگیا مگر اپوزیشن کی جانب سے آرڈیننس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا اور اسے سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا گیا۔
دوسری جانب 15 جنوری 2020ء کو سپریم کورٹ نے نیب آرڈیننس کی شق 25 اےکے تحت پلی بارگین (بدعنوانی سے حاصل کی گئی رقم رضامندی سے واپس کرنے) سے متعلق از خود نوٹس کیس میں حکومت کو نیانیب قانون لانے کے لیے 3 ماہ کی مہلت دی تھی۔
عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ توقع کرتے ہیں حکام نیب قانون سے متعلق مسئلے کو حل کرلیں گے اور نیب قانون کے حوالے سے مناسب قانون پارلیمنٹ سے منظور ہوجائے گا جب کہ 3 ماہ میں مسئلہ حل نہ ہوا تو عدالت قانون اورمیرٹ کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرے گی ۔
خیال رہے کہ نیب آرڈیننس کی شق 25 اےکے تحت پلی بارگین کے خلاف ازخود نوٹس 2016ء میں اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے لیا تھا۔