نیب کا خواجہ برادران کی ضمانت کے فیصلے کیخلاف نظرثانی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ

Last Updated On 21 July,2020 10:06 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) نیب نے خواجہ برادران کی ضمانت کے عدالتی فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ کیس میں سپریم کورٹ کی دی گئی قانونی رہنمائی پر مکمل عمل کیا جائے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ خواجہ برادران کیس میں نیب اپنی گزارشات سپریم کورٹ کے سامنے رکھے گی، نیب حکام نے سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے کا جائزہ لیا، کیس میں سپریم کورٹ کی قانونی رہنمائی پر مکمل عمل کیا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ نےتحریری فیصلے کے پیرا 93 میں واضح کیا ہے کہ آبزرویشنز عارضی نوعیت کی ہیں، احتساب عدالت لاہور میں سعد رفیق، سلمان رفیق کے خلاف ریفرنس شواہد، وعدہ معاف گواہان، اقبالی بیان پر دائر کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: خواجہ برادران کیخلاف نیب کیس انسانی تذلیل کی بدترین مثال ہے، سپریم کورٹ

خواجہ برادران کی ضمانت کی درخواستیں لاہور ہائیکورٹ سے مسترد ہوئیں، احتساب عدالت میں ریفرنس کی روزانہ سماعت کی استدعا کی جائے گی تاکہ نیب آرڈیننس کی دفعہ 16اے کے تحت کرپشن ریفرنس کا جلد از جلد فیصلہ کیا جائے۔

پیراگون ہاؤسنگ کرپشن کیس کا پس منظر
نیب کی جانب سے آشیانہ ہاؤسنگ سوسائٹی کی تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا تھا کہ سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے پیراگون سوسائٹی سے براہ راست روابط ہیں جس کے بعد نیب لاہور نے ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا۔

نیب لاہور کے مطابق خواجہ سعد رفیق نے اپنی اہلیہ، بھائی سلمان رفیق، ندیم ضیاء اور قیصر امین بٹ سے مل کر ائیر ایونیو سوسائٹی بنائی، جس کا نام بعد میں تبدیل کرکے پیراگون رکھ لیا۔

اعلامیے کے مطابق خواجہ سعد رفیق نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹی کی تشہیر کی اور ساتھیوں کے ساتھ مل کر عوام کو دھوکہ دیا اور اربوں روپے کی رقم بٹوری۔

نیب کا الزام ہے کہ خواجہ برادران کے نام پیراگون میں 40 کنال اراضی موجود ہے۔

خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان سے متعلق عدالتی فیصلہ

اس سے قبل سپریم کورٹ نے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق کی ضمانت کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا تھا۔

خیال رہے کہ 11 دسمبر 2018ء کو قومی احتساب بیورو(نیب) نے خواجہ برادران کو پیراگون ہاؤسنگ کیس میں مبینہ کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے رواں سال 17 مارچ کو اس مقدمے میں خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق کی ضمانت 30،30 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کی تھی۔

سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق کی 17 مارچ کو دی گئی ضمانت کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔ 87 صفحات کا تفصیلی فیصلہ جسٹس مقبول باقر نے تحریر کیا۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ ضمانت کا مقصد ملزم کی ٹرائل میں حاضری کو یقینی بنانا ہے، مقصد سزا دینا، جیل بھیجنا یا آزادی سے محروم کرنا نہیں بلکہ تمام مہذب معاشروں میں مجرم قرار دینے کے بعد ہی سزا شروع ہوتی ہے، جب تک ٹرائل کے بعد سزا نہ سنادی جائے ملزم بے گناہ تصور ہوتا ہے، ٹرائل سے پہلے یا ٹرائل کے دوران سزا اذیت کا باعث ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں احتساب کے نام پر تماشا جاری،نیب ختم کرکے نیا ادارہ بنایا جائے: مسلم لیگ ن

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملک میں آئین کے برعکس پاکستان کے عوام کو ان کے بنیادی حقوق کے منافی عمل ہورہا ہے، جب بھی قانون کی حکمرانی آئین کی بالادستی کی کوشش کی گئی تو اسے پوری قوت سے دبانے کی کوشش کی گئی، مسلسل غیرآئینی مداخلت کی گئی، غیرجمہوری قوتوں کی طرف سے طاقت کی ہوس، قبضے کا لالچ آئینی اورجمہوری اصولوں کی نفی بنتا گیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ پیرا گون مقدمہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی، غیرقانونی طور پر آزادی سلب کرنے کی بڑی مثال ہے، نیب نے اس مقدمے میں قانون کی کھلے عام خلاف ورزی کی، قانون اور آئین کا جائزہ لینے کے باوجود یہ راز میں ہے کہ یہ مقدمہ کیسے بنایا گیا۔

نیب قوانین پر سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ نیب قانون ملک میں بہتری کے بجائے مخالفین کا بازو مروڑنے کے لیے استعمال کیا گیا، نیب قانون وفاداری تبدیل کرانے، سیاسی مخالفین کو سبق سکھانے، سیاسی جماعتوں کو توڑنے کے لیے استعمال کیا گیا، چھوٹے لوگوں کو منتخب اور ان کی نشوونما کرکے اہم عہدوں پر بٹھایا گیا، جن کے بدنما ماضی اور مجرمانہ ریکارڈ تھے، انہیں قوم پر مسلط کیا گیا، اس دوران ملک میں کرپشن میں اضافہ ہوتا گیا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملک میں جمہوری قدروں، آئین کی حکمرانی اور برداشت کو ہوا میں اڑایا گیا، ایسے لوگ جنہوں نے ملک میں تباہی اورموت کا کھیل رچایا، انہیں تحفظ فراہم کیا جاتا رہا، ملک کا کوئی بھی ادارہ کرپشن سے پاک نہیں ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے تحریری فیصلے میں لکھا کہ نیب آرڈیننس کا قانون جنرل پرویز مشرف دور کا نیب قانون اپنے اجراء سے ہی انتہائی متنازع ہے، عام تاثر یہ ہے کہ یہ قانون سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے، نیب کے امتیازی رویے کے باعث اس کا اپنا امیج متاثر ہوتا ہے اور اس کی غیرجانبداری سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔

نیب کے کردار پر سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ نیب سیاسی لائن کے دوسری طرف کھڑے ایسے افراد جن پربڑے مالی کرپشن کے الزامات ہیں کے خلاف تو کوئی قدم نہیں اٹھاتا جب کہ دوسری طرف کے افراد کو گرفتار کرکے مہینوں اور سالوں تک بغیر وجہ اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

نیب کردار کے حوالے سے فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ نیب قانون کہتا ہے کہ تفتیش جلد مکمل کی جائے اور 30 دن میں ریفرنس کا فیصلہ ہو مگر نیب مقدمات میں مہینوں اور سالوں تک تفتیش مکمل نہیں کر پاتا، سالوں گزرنے کے باوجود فیصلے نہیں ہوتے، وجہ نیب میں پیشہ وارانہ مہارت کا فقدان ہے، یہی وجہ ہے کہ نیب مقدمات میں سزا کی شرح انتہائی حد تک کم ہے، اس سے نہ تو قومی مقصد پورا ہورہا ہے بلکہ ملک و قوم اورمعاشرے کو ہمہ جہت نقصان پہنچ رہا ہے۔

Advertisement