اسلام آباد: (دنیا نیوز) مقبوضہ کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی کے بھارتی غاصبانہ اقدام کے خلاف کل ملک بھر میں یوم استحصال منایا جائے گا۔ کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ریلیاں، اجتماع اور تقاریب منعقد کی جائیں گی۔
خیال رہے بھارت کے آئین میں کشمیر کے حوالے سے دو بنیادی آرٹیکل شامل تھے جن میں آرٹیکل ون کہتا ہے کہ جموں و کشمیر بھارت کی ایک ریاست ہے اور دوسرا آرٹیکل 370 تھا جس کی حیثیت عارضی قرار دی گئی تھی لیکن وہ مقبوضہ ریاست کو خصوصی حیثیت دیتا تھا۔
14 مئی 1954 کو ایک صدارتی آرڈیننس نافذ کیا گیا جس کو دی کانسٹی ٹیوشن ایپلی کیشن ٹو جموں و کشمیر 35 اے کا نام دیا گیا اور بھارتی آئین میں شامل کر دیا گیا۔ آرٹیکل 35 اے کے تحت جموں و کشمیر کو بھارت کی دیگر ریاستوں کے شہریوں کو کشمیر میں مستقل شہریت سے محروم کر دیا گیا۔ اس کے تحت واضح کیا گیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کا مستقل شہری کون ہے اور کون زمین خرید سکتا ہے۔
بھارت کی ماضی کی حکومتوں خواہ کانگریس ہو یا بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اپنے آئین کے آرٹیکل 35 اے اور 370 کے تحت کشمیر کی متنازع حیثیت کو کبھی نہیں چھیڑا، اگرچہ مقبوضہ علاقے میں فوج، پولیس کے ظلم و ستم بدستور جاری رہے لیکن کشمیریوں کی خصوصی حیثیت ختم نہیں کی گئی۔ مگر 2019 میں نریندر مودی کی حکومت نے وزیر داخلہ امیت شاہ کی سرکردگی میں 5 اگست 2019 کو 80 لاکھ سے زائد آبادی کا حامل یہ خطہ متنازع طور پر تقسیم کر کے رکھ دیا۔
اس اقدام سے تعلیمی ادارے مسلسل 6 ماہ سے بند ہیں۔ غذائی اجناس کی صورت حال سے دنیا نا واقف ہے۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹر نہیں بلکہ وہاں پر بھارتی فوج کا بسیرا ہے۔ پاکستان سمیت اقوام عالم باخبر ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ظلم و جبر کا نیا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ 5 اگست سے آج تک کشمیر میں انسانی حقوق پامال کئے جا رہے ہیں، جنت نظیر وادی میں جبر و استبداد کا بازار گرم ہے۔
بھارت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرفیو نافذ کیا اور لاک ڈاؤن کے دوران موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس معطل کر دی۔ پارلیمنٹ سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کر کے کشمیر کو تقسیم کرنے کا فارمولا پیش کیا اور قرارداد اکثریت کی بنیاد پر منظور کرلی گئی۔ بھارتی صدر نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے لیے آرڈیننس پر دستخط کیے تاہم اس کا نفاذ گزشتہ سال ہی اکتوبر میں کر دیا گیا۔