اسلام آباد: (تحریر، خاور گھمن) وزیراعظم عمران خان کو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالے دو سال مکمل ہو چکے ہیں۔ اب ہر زبان پر چند ہی سوالات ہیں۔ 2 سال میں کامیابیوں اورناکامیوں کا تناسب کیا رہا، منشور پر کس حد تک عمل ہوا؟ غریب عوام کو کتنا ریلیف ملا؟ ویسے ملک کی حالیہ سیاسی تاریخ کے دوران ایسی کوئی حکومت نہیں گزری جس کی دو سالہ کارکردگی کا اسطرح سے پوسٹ مارٹم کیا گیا ہو۔
اس کی بنیادی وجہ وزیراعظم کے اپوزیشن میں رہتے ہوئے بلند و بانگ دعوے تھے کہ اگر انہیں اقتدار ملا تو وہ عوام کی تقدیر بدل دیں گے۔ دوسر ی جانب اگر حزب اختلاف کے بیانیے کو سامنے رکھیں تو ملک کے تمام تر موجودہ مسائل کی وجہ تحریک انصاف کی حکومت اور وزیراعظم عمران خان ہیں۔
ویسے اپوزیشن کی تنقید کوئی اچنمبھے کی بات نہیں ہے، کیونکہ کچھ اسی طرح کا بیانیہ 2008-2013 تک مسلم لیگ(ن)نے پاکستان پیپلزپارٹی کے خلاف جبکہ 2013-2018 تک تحریک انصاف نے (ن )لیگ کیخلاف اپنائے رکھا تھا۔ بد قسمتی سے ہمارے سیاستدانوں نے ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی روش ضرورت سے زیادہ اپنا رکھی ہے جو ملکی مفاد میں ہر گز نہیں۔ تنقید برائے اصلاح ایک جائز عمل ہے لیکن کسی بھی سیاسی رہنما کی حیثیت کو ملکی سلامتی کیلئے خطرناک قرار دینا اور اس کیلئے سکیورٹی رسک جیسی اصطلاح استعمال کرنا درست نہیں۔جہاں تک تحریک انصاف کی دو سالہ کارکردگی کی بات ہے یہ ایک ’’مکسڈ بیگ‘‘ لگتا ہے۔ لیکن زیادہ تر لوگوں کا ماننا ہے کہ وزیر اعظم کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے ایسے نقصانات بھی ہوئے جن سے بچا جا سکتا تھا۔ تحریک انصاف نے حکومت سنبھالنے کے بعد گورننس کے حوالے سے سنگین غلطیاں کیں، جن کا خمیازہ ملک اور قوم آج بھی بھگت رہی ہے۔ زیادہ تراقتصادی ماہرین کے مطابق تحریک انصاف کو حکومت سبنھالنے کے بعد فوراً آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہیے تھا۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے نہ جانے کی کنفیوژن میں 6 سے 8 ماہ ضائع کر دئیے گئے۔ بلند شرح سود پر دوست ممالک سے قرض لیکر ملکی معاشی حالت سدھارنے کی کوشش کی گئی اور بالآخر جب ملک چلانے کی خاطر قرض لینے کیلئے آئی ایم ایف سے رابطہ ہوا تو انتہائی سخت شرائط کیساتھ قرض لینا پڑا۔ دوسری بڑی غلطی جس پر اپوزیشن کی طرف سے طعنہ دیا جاتا ہے وہ سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بری گورننس ہے۔وزیر اعظم نے اپنی پہلی تقریر میں پنجاب پولیس کو ٹھیک کرنے کیلئے خیبر پختونخوا کے سابق آئی جی کا بار ہا نام لیا حسب توقع انہیں پنجاب میں پولیس اصلاحات کے حوالے سے اہم ذمہ داری بھی سونپی گئی اور پھر ساری دنیا نے دیکھا انہیں اراکین صوبائی اسمبلی کے دبائو پر عہدے سے ہٹا دیاگیا۔ لیکن آج تک اس حوالے سے حکومت کی طرف سے کوئی واضح توجیح پیش نہیں کی گئی۔
تحریک انصاف کی ایک اور بڑی غلطی پنجاب میں بلدیاتی حکومتوں کا خاتمہ ہے۔ بلدیاتی نمائندے مسلم لیگ (ن )کے تھے لیکن دور اندیشی کا تقاضا تھاکہ اس نظام کی بساط لپیٹنے کے بجائے زیادہ فعال بنایا جاتا تو (ن) لیگ کو پنجاب میں سیاسی طور پر بڑا نقصان پہنچایا جا سکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شہباز شریف نے ہمیشہ بلدیاتی نمائندوں کو نظر انداز کیا لیکن اگر تحریک انصاف کی طرف سے بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات ملتے تو پنجاب میں تحریک انصاف کی سیاسی گرفت کچھ مختلف ہوتی۔ اب جب دوبارہ بلدیاتی الیکشن ہوں گے تو عثمان بزدار اور عمران خان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
میری دانست میں تحریک انصاف کی تیسری بڑی غلطی انتظامی معاملات میں ہر سطح پر مسلسل تبدیلیاں ہیں۔2 سال کا بڑا عرصہ گزرنے کے بعد بھی اب تک حکومت ایک مستقل اور فعال چیئرمین ایف بی آر ڈھونڈنے میں مشغول ہے۔ اسی طرح بورڈ آف انوسٹمنٹ کے چیئرمین کی بھی بار بار تبدیلی ہو رہی ہے۔ وفاقی اور صوبائی وزرا کے محکمے تبدیل ہو رہے ہیں۔خاص طور پر پنجاب میں بیورو کریسی میں تبدیلی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر تحریک انصاف کا بطور حکومتی جماعت نااہلی اور نالائقی کا تاثر ملتا ہے۔ اس تاثر کے باجود ایسا بھی نہیں ہے کہ دوسال کے عرصے میں پاکستان تحریک انصاف حکومت نے کچھ بھی نہیں کیا۔ ایک غیر روایتی وزیراعظم ہونے کے ناطے چند اچھے کام بھی ہوتے ہوئے نظر آئے۔کورونا وائرس جیسی عالمی وباء اور کرائسسز میں حکومتی لائحہ عمل کا کامیاب ہونا ایک بہت بڑی کامیابی ہے ، جس کی گونج آئے دن مختلف عالمی فورمز پر بھی سنائی دیتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی بڑی کامیابی ملک کی خارجہ پالیسی کو آزاد اور مستقل بنیادوں پر استوار کرنا بھی ہے۔ماضی کے برعکس اسلام آباد اور راولپنڈی خارجہ پالیسی پر مکمل ہم آہنگی کیساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ افغانستان ہو یا مسئلہ کشمیر، سعودی عرب ،امریکہ یا چین کیساتھ تعلقات ، سول اور ملٹری قیادت ایک پیج پر نظر آئی اور اس کا نتیجہ متفقہ بیانیے کی صورت میں سامنے آیا۔تیسری بڑی کامیابی جسے تجزیہ نگار قابل تحسین قرار دیتے ہیں وہ احساس پروگرام ہے۔ سب سے اہم بات تحریک انصاف ملکی تاریخ میں واحد حکومت ہے جس میں حکومت کے اپنے وزرا ء ایک دوسرے کی غلطیوں کی عوام کے سامنے نشاندہی کرنے میں بھی ہچکچاہٹ کا مظاہر ہ نہیں کرتے۔
کامیابیوں اور ناکامیوں کیساتھ وزیر اعظم عمران خان کو یہ جان لینا چاہیے کہ سیکھنے کیلئے 2 سال کاعرصہ کافی ہو تاہے اور ان کی کارکردگی کا اثر براہ راست عوام پر پڑتا ہے۔ ترقیاتی منصوبے بھی نہ ہونے کے برابر ہیں جن سے نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں بلکہ عوام کی زندگیوں میں آسانیاں لائی جا سکتی ہیں۔ اگر حکومت کے تیسرے سا ل میں بھی ملک سے مہنگائی اور بے روزگاری میں نمایاں کمی نہیں آتی تو خارجہ پالیسی میں جتنا مرضی ڈلیور کر لیں ،عمران خان کیلئے صورتحال گھمبیر ہو سکتی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ عمران خان کتنی کامیابی سے ان چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہیں۔