اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کشمیری جب تک اقوامِ متحدہ کے تفویض کردہ حقِ خود ارادیت کا اظہار نہیں کرتے تب تک کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے، پاکستان کیلئے اس وقت تک بھارت سے بات چیت اور سہ فریقی افغان امن عمل میں اس کی شمولیت کو قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔
تفصیل کے مطابق وزیراعظم عمران خان سے پاک افغان یوتھ فورم کے وفد نے ملاقات کی جس میں اعلیٰ حکام کے علاوہ افغانستان سے تعلق رکھنے والے صحافیوں، ایڈیٹروں، فلمسازوں، کاروباری شخصیات، صنعت کاروں اور دفائی تجزیہ نگاروں نے شرکت کی۔
اس ملاقات کا مقصد پاک افغان فورم کے اراکین کے پاکستان افغان تعلقات، پاکستان کے افغانستان میں پائیدار امن کیلئے اٹھائے گئے اقدامات اور خطے کی مجموعی صورتحال کے حوالے سے اراکین کے سوالات پر حکومت کا مؤقف واضح کرنا اور نوجوانوں کو پاکستان کی افغان امن عمل کیلئے کوششوں کے بارے آگاہی دینا تھا۔ ملاقات میں وزیرِ اعظم نے اراکین کے سوالات کے جوابات دیئے۔
افغانستان امن عمل میں ہندوستان اور پاکستان کے اشتراک کے متعلق سوال کے جواب میں وزیرِاعظم نے کہا کہ بھارت نے 5 اگست 2019ء میں اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یکطرفہ طور پر کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کیا، ناصرف یہ بلکہ کشمیریوں پر ظلم وبربریت کے نئے باب کا آغاز کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان 1948ء سے کشمیریوں کے حقوق کے تحفط کیلئے عالمی سطح پر اپنی آواز بلند کر رہا ہے۔ جب تک بھارت اپنے 5 اگست کے اقدام کو واپس نہیں لیتا، کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال نہیں کرتا، کشمیری جب تک اقوامِ متحدہ کے تفویض کردہ حقِ خود ارادیت کا اظہار نہیں کرتے، تب تک کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے، تب تک بھارت سے بات چیت اور پاکستان اس کے سہ فریقی افغان امن عمل میں شمولیت کو قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔
وزیرِاعظم نے مزید کہا کہ انہوں نے حال ہی میں افغانستان کا دورہ کیا اور صدر اشرف غنی سے انکے اچھے تعلقات ہیں لیکن حالیہ بیانات میں افغان رہنماؤں نے پاکستان کو افغان بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا جو کہ انتہائی افسوس کی بات ہے کیونکہ پاکستان نے پہلے امریکہ اور پھر افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کیلئے طالبان کو قائل کرنے کے لئے سخت جدوجہد کی ہے۔ خطے کا کوئی اور ملک پاکستان کی کوششوں سے برابری کا دعویدار نہیں ہو سکتا. جس کی تائید امریکی نمائندہِ خصوصی زالمے خلیل زاد نے بھی کی ہے۔
افغانستان میں کھیلوں کے فروغ، خاص طور پر کرکٹ کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ کرکٹ کی تاریخ میں کسی دوسرے ملک نے اتنے کم وقت میں ترقی نہیں کی جتنی افغانستان نے کی. جہاں افغان ٹیم اب ہے اس مقام تک پہنچنے میں دوسرے ممالک نے ستر سال لگائے۔ جسکی بڑی وجہ افغانی مہاجرین کا پاکستان میں قائم کیمپوں میں کرکٹ کا سیکھنا ہے جو قابل تعریف ہے۔
پاکستان میں سول اور عسکری اداروں کے افغانستان امن عمل میں ایک پیج پر ہونے کے سوال کے جواب میں وزیرِ اعظم نے کہا کہ بدقسمتی سے افغانستان میں غلط تاثر موجود ہے کہ پاکستان کو عسکری اداروے کنٹرول کنٹرول کرتے ہیں جو بد قسمتی سے سراسر بھارت کا پھیلایا ہوا پروپگینڈہ ہے ۔ میری حکومت کی خارجہ پالیسی گذشتہ پچیس سالوں سے میری پارٹی کے منشور کا حصہ رہی ہے۔ میرا ہمیشہ سے یہی مؤقف رہا ہے کہ افغان مسئلے کا حل عسکری نہیں بلکہ سیاسی طریقے سے ممکن ہے۔ پچھلے پندرہ سالوں سے پارٹی سربراہ کی حیثیت سے اور پچھلے تین سالوں سے حکومت میں رہ کر میں اپنے مؤقف پر قائم ہوں اور حکومت کو اس مؤقف پر عسکری اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ سے ہندوستان کے ساتھ امن کا خواہاں ہے مگر ہندوستان امن نہیں چاہتا کیونکہ وہ اس وقت آر ایس ایس کے نظریے کے ریرِ تسلط ہے جو نہ صرف کشمیر بلکہ ہندوستان میں مسلمانوں، دیگر مذاہب کے ماننے والوں اور اقلیتوں کے ساتھ برا سلوک کر رہے ہیں یہی محرکات ہندوستان کے ساتھ امن میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستان دنیا میں کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ افغانستان میں امن چاہتا ہے کیونکہ اگر افغانستان میں امن ہوتا ہے تو پاکستان کو وسط ایشیائی ممالک تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔ ہم پہلے ہی ازبکستان کے ساتھ مزار شریف ، پشاور ریلوے لائن کے لئے معاہدہ کر چکے ہیں جو افغانستان کے راستے پاکستان پہنچے گا۔ ہماری مستقبل کی تمام معاشی حکمت عملیوں کا انحصار افغانستان میں امن پر ہے۔ پاکستانی عوام افغانیوں کو پڑوسیوں کی بجائے اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔