اسلام آباد:(دنیا نیوز) قومی اسمبلی تحلیل ہونے اور موجودہ سیاسی صورتحال پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ہدایت کی کہ آئینی حیثیت سے مطمئن کیا جائے، فریقین کو سنے بغیر حکم امتناع نہیں دے سکتے۔ سپریم کورٹ نے ریاستی عہدیداروں کو کسی بھی ماورائے آئین اقدام سے روکتے ہوئے کیس کی سماعت آج تک کے لئے ملتوی کردی ہے۔
سپریم کورٹ نے سیاسی حالات پر لئے گئے نوٹس پر لارجر بنچ بنانے کا فیصلہ کیا ہے، نیا تشکیل کردہ 5 رکنی لارجر بنچ آج دن ایک بجے سماعت کرے گا جبکہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے ریفرنس پر آج ہونے والی سماعت موخر کردی گئی ہے۔
قبل ازیں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس محمد علی مظہر نے کیس کی سماعت کی۔
اس موقع سپریم کورٹ نے کسی بھی ماورائے آئین اقدام سے روکتے ہوئے صدر، وزیراعظم، تمام سیاسی جماعتوں، سپیکر، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی، اٹارنی جنرل، سیکرٹری داخلہ، دفاع، پنجاب کے آئینی بحران پر ایڈووکیٹ جنرل اور سپریم کورٹ بار کو نوٹس جاری کر دیئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ رمضان ہے سب نے روزہ رکھا ہے، تمام ادارے آئینی حدود کے مطابق کردار ادا کریں، تمام سیاسی قوتیں اور ریاستی حکام صورتحال کا فائدہ نہ اٹھائیں، معاملہ پر دائر درخواستوں کو رجسٹرڈ کیا جاتا ہے، امن و امان کی صورتحال خراب نہیں ہونی چاہیے، تمام سیاسی جماعتیں امن و امان یقینی بنائیں۔
سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون نے عدالت میں کہا کہ انہوں نے ہر چیز کو پاؤں تلے روند دیا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ باتیں باہر کریں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم اور کے تمام احکامات سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط ہونگے، تمام ادارے آئینی حدود کے مطابق کردار ادا کریں، وفاق اور صوبوں میں امن و امان کو برقرار رکھا جائے، تمام سیاسی قوتیں اور ریاستی حکام صورتحال کا فائدہ نہ اٹھائیں، امن و عامہ کو بحال رکھنے پر سیکرٹری داخلہ دفاع جواب دیں، معاملہ پر دائر درخواستوں کو رجسٹرڈ کیا جاتا ہے۔
وکیل لطیف کھوسہ نے درخواست کی کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ معطل کی جائے جس پر عدالت عدالت نے رولنگ معطل کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔
ن لیگ کے وکیل نے کہا کہ پنجاب میں بھی آئینی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، سپیکر پنجاب اسمبلی نے تین منٹ بعد ہی اجلاس ملتوی کر دیا، بغیر کوئی وجہ بتائے اجلاس 6 اپریل تک ملتوی کیا گیا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پنجاب کے حوالے سے پٹیشن آئے گی تو تفصیل سے دیکھیں گے، پنجاب کی صورتحال کا زیادہ علم نہیں ہے، اسمبلی کی کارروائی میں ایک حد تک مداخلت کر سکتے ہیں۔
عدالت نے پنجاب میں امن و امان یقینی بنانے کا حکم دیا کہ ایڈووکیٹ جنرل، ڈپٹی اسپیکر پنخاب کے معاملہ پر وضاحت کریں، وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں سیاسی جماعتیں امن و عامہ کو برقرار رکھیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ دونوں ایوانوں کے تقدس کا خیال رکھا جائے جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اراکین اسمبلی کا احتجاج ریکارڈ ہوچکا، توقع نہیں ہے کہ اراکین اسمبلی پوری رات ایوان میں رہیں گے۔
چیف جسٹس نے پیپلزپارٹی کی درخواست مقرر کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ سپریم کورٹ ڈپٹی اسپیکر کے اقدامات کا جائزہ لے گی، تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی آئینی حیثیت سے مطمئن کیا جائے، فریقین کو سنے بغیر حکم امتناع نہیں دے سکتے۔
تحریری حکمنامہ
سپریم کورٹ نے سیاسی صورتحال پر لیے گئے از خود نوٹس کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کیلئے سب سے اہم بات ملک میں امن و امان قائم کرنا ہے، دیکھنا ہوگا ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو آرٹیکل 69 کے تحت تحفظ حاصل ہے یا نہیں، صدر اور وزیر اعظم کا جاری کردہ کوئی بھی حکم سپریم کورٹ سے مشروط ہوگا۔
حکمنامہ کے مطابق سپریم کورٹ نے سیکرٹری داخلہ اور دفاع کو ملک بھر میں امن و امان قائم کرنے کیلئے کیے گئے اقدامات کی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے کہا ہے کہ اٹارنی جنرل ڈپٹی اسپیکر کے اقدام پر عدالت کی معاونت کریں اور بتائیں کہ کیا ڈپٹی اسپیکر متاثرہ جماعتوں کو سنے بغیر آرٹیکل 5 کا اطلاق کر سکتے ہیں؟
سپریم کورٹ نے پنجاب اسمبلی میں پیدا ہونے والی صورتحال پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹس جاری کیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ پنجاب میں نئے وزیر اعلیٰ کے تقرر کا عمل آئینی اور پر امن طریقے سے کیا جائے، قانون نافز کرنے والے ادارے پنجاب میں امن و امن برقرار رکھنے کیلئے آئین و قانون پر سختی سے عمل کریں۔
سپریم کورٹ کے تحریری حکمنامہ میں مزید کہا گیا کہ وزیر اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد مسترد ہونے سے متعلق میڈیا رپورٹس سامنے آئیں، متعدد ججز نے چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات کی، ججز نے تحریک عدم اعتماد مسترد ہونے سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا، سپریم کورٹ نے معاملے کا نوٹس لیا اور اتوار کو ہی سماعت کیلئے مقرر کیا۔