اسلام آباد: (خاور گھمن) آج کل شہر اقتدار میں ایک ہی سوال کیا جارہا ہے۔کہ آنے والے انتخابات یا مستقبل قریب میں عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟عمران خان پہلے بھی2013ء میں بھرپور جلسے کرچکے ہیںاور ڈی چوک پر ملکی تاریخ میں126دن کا ریکارڈ دھرنا بھی دیالیکن آخر کار2018ء میں سابق وزیراعظم کو آزاد امیدواروں اور کچھ پارٹیوں کے ساتھ مل ملا کے حکومت بنانا پڑی جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔اب ایک سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ کیا عمران خان کی اس مقبولیت اور جو بیانیہ وہ لے کے نکلے ہوئے ہیںاس ساری صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے، موجودہ مخلوط حکومت وقت سے پہلے الیکشن کروانے پر رضامند ہوجائیگی؟
اس وقت ملکی معیشت سب سے اہم پہلو ہے۔ڈالر کی اڑان کوکوئی روکنے والا نہیں۔روپے کی قیمت روز بروز گرتی جارہی ہے۔آئی ایم ایف کی ایک ہی شرط ہے بجلی،پٹرول کی قیمتیں بڑھائی جائیں۔صاف ظاہر ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اس موجودہ صورتحال میں آئی ایم ایف کی شرائط کو قبول کرتے ہوئے اگر کوئی فیصلہ کرتے ہیںتو عوام کا اس پر ضرور ردعمل آئے گاجس کا فائدہ سابق وزیراعظم عمران خان کو ہوگا۔ عوام کو تو پہلے دن سے یہی باور کروایا جارہا ہے کہ موجودہ حکومت،مہنگائی کو کم اور معیشت کو مضبوط کرنے کیلئے آئی ہے۔اگر یہ گنگا الٹی بہے گی تو حالات اور ووٹ دونوں ہی ہاتھ سے نکل سکتے ہیںاور آنے والے عام انتخابات میں شاید اس کا سب سے بڑا نقصان ن لیگ کو بھگتنا پڑے۔
اس ساری صورتحال کو لے کر جب ہماری بات مختلف سیاسی ماہرین سے ہوئی تو وہ سب اس بات پر متفق نظر آئے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی گرما گرمی کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ حکومت کو اب عام انتخابات کی کوئی نہ کوئی تاریخ دینی پڑے گی۔ظاہر ہے عمران خان نے اپنے کارکنوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے نوجوانوں کو اسلام آباد آنے کی کال دے رکھی ہے اور ہر جلسے میں وہ اپنے کارکنوں کو اسلام آباد آنے کیلئے تیار بھی کرتے نظر آتے ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر لانگ مارچ ناکام بھی ہوتا ہے تو عمران خان اتنی آسانی سے گھر بیٹھنے والا نہیں ہے۔اگر اگلے چند دنوں میں حکومت الیکشن کی کوئی تاریخ دے دیتی ہے تو شاید اونٹ کسی کروٹ بیٹھے جائے۔گزشتہ دنوں بنی گالہ میں ہماری ملاقات عمران خان سے ہوئی تو ان کا یہی کہنا تھا کہ جب تک الیکشن کی کوئی تاریخ نہیں ملتی تب تک آرام سے نہیں بیٹھوں گا۔اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ اگر گزشتہ ماہ سے دیکھا جائے تو عمران خان ایک سیاسی حقیقت بن چکے ہیں،اگر کسی کا خیال ہے کہ عمران خان کو منظر سے ہٹایا جائے تو یہ ناممکن نظر آتا ہے۔صوبہ پنجاب کے حوالے سے جب ہماری بات مختلف ماہرین سے ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ آج بھی پنجاب میں ووٹ بینک رکھتی ہے اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ آنے والے انتخابات میں تمام متحدہ جماعتیںعمران خان کو سیاسی طور پر کمزور کرنے اور دوبارہ حکومت میں آنے سے روکنے کیلئے کسی سیاسی اتحاد کی شکل اختیار کرسکتی ہیںجس سے ن لیگ دوبارہ اقتدار میں آسکتی ہے۔
اس سیاسی کھینچاتانی میں،وطن عزیز کو اس وقت معیشت کے ساتھ ساتھ بے پناہ مسائل کا سامنا ہے۔ اگر ملک کی تمام صورتحال کو مدنظر رکھا جائے تو آنے والے عام انتخابات کا دارومدار ملکی معیشت پر ہوگا۔مثال کے طور پراگر تمام متحدہ جماعتیں یہ بیانیہ بنا کر الیکشن کی طرف جاتی ہے کہ ہم مجبور ہیں،حالات کنٹرول سے باہر ہیں۔سب کچھ عمران خان کا کیا دھرا ہے۔ اس لیے اگر ابھی انتخابات میں جانے کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو یہ بیانیہ بنایا جا سکتا ہے۔دوسری طرف پی ٹی آئی والے جو شروع دن سے ہی کہہ رہے ہیںکہ ہم نے بمشکل معیشت کو سنبھالا ہوا تھا۔عدم اعتماد لاکے ہمیں کام نہ کرنے دیا گیاجب ہم عام آدمی کو ریلیف دینے کے فیصلے کررہے تھے تو ہمیں حکومت سے باہر نکال دیا گیا۔ اس پس منظر میں کس کا بیانیہ جیتے گا یہ تو انتخابات سے ہی پتہ چلے گا۔
ایک اور بھی بڑی قابل غور بات ہے کہ اگر تو متحدہ اپوزیشن جماعتیں اسمبلیوں کی باقی مدت پوری کرنے پر بضد ہوجاتی ہیں تو پھر شہباز شریف کو معیشت کے حوالے سے سخت فیصلے کرنے ہونگے اور ن لیگ کا مستقبل آنے والے دنوں میں ان فیصلوں کے مرہون منت ہو گا۔ اگر دیکھا جائے تو اس وقت سارے بوجھ کا وزن شہباز شریف کے کندھوں پر ہے۔ شہباز شریف اس صورتحال پر خاصے پریشان نظر آنے لگے ہیں۔لندن دورے کا بھی ابھی تک کوئی سرپیر نظر نہیں آرہا۔ ابھی تک تو یہی بتایا جا رہا ہے کہ اتحادیوں کے ساتھ مشورہ کرنے کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔ اگر موجودہ حکومت عام آدمی کو ریلیف دینے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ ایک بہت بڑا اقدام ہوگالیکن اگر ملکی معیشت اسی طرح رہی،عام آدمی مہنگائی کی چکی میں پستا رہا تو اس سے ملکی مسائل بڑھنے کے ساتھ ساتھ شاید اس کا خمیاہ آنے والے الیکشن میں ن لیگ کو بھگتنا پڑے۔اس وقت ہر کسی کی نظریں اسلام آباد کی طرف ہیںکہ آیا جیت سیاست کی ہوتی ہے یا معیشت کی۔