اسلام آباد: (دنیا نیوز) وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ کارکنوں کے مسلح ہونے کے اعتراف کے بعد کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ،عمران خان دو سو فیصد گولی چلانے کے ارادے سے آئے، کس بلڈنگ میں کتنے لوگ تھے،تعین کررہےہیں، پی ٹی آئی والوں پر مقدمہ درج ہونا چاہیے اور سرغنہ گرفتار ہونا چاہیے۔
وفاقی کابینہ اجلاس کے بعد وزیر مواصلات اسعد محمود، وزیراعظم کے مشیر قمر زمان کائرہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ تحریک انصاف سیاسی جماعت اور تمام سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد میں داخل ہوئی، ان کے گینگ میں کریمنل شامل تھے اور دیگر محکموں کے لوگوں کو بھی یہاں پر لایا گیا اور اس مجرمانہ سیاسی ایجنڈا، جو قوم کو تقسیم کرنے اور نوجوانوں کو گمراہ کرنے پر مشتمل ہے ، کے ساتھ وفاق پر حملہ آور ہوئے، اسلام آباد میں صرف چند ہزار لوگ اکٹھے ہوئے۔
رانا ثناء اﷲ نے کہا ہے کہ عمران خان صوابی سے ہی مسلح افراد لے کر نکلے تھے، فسادی ٹولہ ملک میں انتشار اور افراتفری پھیلانا چاہتا ہے، لانگ مارچ کو اسلام آباد میں داخلہ سے روکا گیا تو پولیس فائرنگ کی گئی،پارلیمنٹ لاجز اور خیبرپختونخوا ہائوس میں بھی مسلح لوگوں کو پناہ دی گئی۔ پی ٹی آئی کے مارچ کو جب اٹک ڈسٹرکٹ، میانوالی اور اسلام آباد کی حدود پر روکا گیا تو اس نے پولیس پر فائرنگ کی اور مسلح انداز میں پولیس کو یرغمال بنایا گیا۔ جب سپریم کورٹ سے آرڈر آیا کہ راستے کھول کر انہیں یہاں آنے دیا جائے اور انہیں ایچ نائن میں جلسہ کرنے کی اجازت دی جس کیلئے ہم نے انتظامات بھی کئے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد جلسہ اور سیاسی سرگرمی نہیں بلکہ یہاں پر انارکی اور افراتفری پھیلانا تھا۔ انہیں سپریم کورٹ سے جب موقع ملا تو انہوں نے ایک لمحہ کیلئے نہیں سوچا کہ وہ جلسہ کریں گے بلکہ انہوں نے یہ تہیہ کر رکھا تھا کہ وہ ڈی چوک ضرور جائیں گے، ڈی چوک میں تحریک انصاف کے تین سے چار ہزار لوگ جمع ہو چکے تھے، ان سب کا تعلق ایک صوبے سے تھا اور وہ ایک جتھے کا فرنٹ تھے، یہ لوگ ایک دو دن پہلے یہاں آ چکے تھے، ہم ایک ایک کا نام درج کر رہے ہیں، یہ لوگ پارلیمنٹ لاجز اور کے پی کے ہائوس میں ٹھہرائے گئے، پارلیمنٹ لاجز میں پورے ملک سے اراکین مقیم ہیں، پی ٹی آئی نے مسلح لوگوں کو یہاں ٹھہرا کر بڑی غلطی کی، عمران خان نے عدالتی احکامات کے بعد ڈی چوک جانے کا اعلان کر دیا تھا یہ نہ صرف سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی بلکہ توہین عدالت تھی۔