اسلام آباد: (دنیا نیوز، علی مصطفیٰ، حارث ضمیر) وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مالی سال 2022-23ء کا چار ہزار ارب سے زائد خسارے کا 9 ہزار 502 ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا۔ تنخواہوں میں 15، پنشن میں 5 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، جی ڈی پی کی شرح نمو 5 فیصد تک لے جانے کا ہدف رکھا گیا ہے، قرض کی اور سود کی ادائیگی کیلئے 3 ہزار 950 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، ٹیکس وصولیوں کا ہدف 7 ہزار 4 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے جبکہ دفاع پر ایک ہزار 523 ارب روپے خرچ ہونگے۔
بجٹ 2022-23 کے نمایاں خدوخال
کم آمدن والے خاندان کو 2 ہزار روپے ماہانہ مدد ملے گی
حکومتی اقدام سے 8 کروڑ افراد مستفید ہونگے
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ افراد کو 2 ہزار روپے اضافہ ملیں گے
زیادہ آمدن والوں پر اسپیشل ٹیکس لگایا جارہا ہے
ایسے اشیا پر ٹیکس لگایا جارہا ہے جو زیادہ آمدن والے خریدتے ہیں
کابینہ اور سرکاری اہلکاروں کی پیٹرول الاونس کو 50 فیصد کم کیا جارہا ہے
بیرونی دوروں کے علاوہ تمام دوروں پر پابندی ہوگی
پنشنز کی مد میں آئندہ مالی سال 530 ارب روپے کا تخمینہ ہے
مہنگائی کا تخمینہ 11 اعشاریہ 5 فیصد لگایا گیا ہے
دنیا بھر میں ٹیکس کا جی ڈی پی سے تناسب 16 فیصد ہے
پاکستان میں ٹیکس کا جی ڈی پی سے تناسب 8 اعشاریہ 6 فیصد ہے
نئے مالی سال میں یہ شرح 9 اعشاریہ 2 فیصد تجویز کی گئی ہے
مجموعی خسارہ جی ڈی پی کا 8 فیصد رہے گا
نئے مالی سال کا تخمینہ جی ڈی پی کا 4 اعشاریہ 8 فیصد رکھا گیا ہے
آئندہ مالی سال میں درآمدات کا تخمینہ 70 ارب ڈالر رکھا گیا ہے
رواں مالی سال درآمدات 76 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے
آئندہ مالی سال برآمدات کا تخمینہ 35 ارب ڈالر ہے
رواں مالی سال برآمدات کا تخمینہ 31 ارب ڈالر رہے
ترسیلات زر کا تخمینہ 33 ارب 20 کروڑ ڈالر ہے
رواں مالی سال ترسیلات زر 31 ارب ڈالر تک ریکارڈ ہونگی
نئے مالی سال کا بجٹ 9502 ارب روپے رکھا گیا ہے
قرض و سود کی ادائیگی پر 3 ہزار 950 ارب روپے کا تخمینہ
ترقیاتی اخراجات کی مد میں 800 ارب روپے مختص
دفاع کے لئے 1523 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں
سول انتظام کو چلانے کے لئے 550 ارب روپے مختص
پنشن کے لئے 530 ارب روپے مختص کیے گئے
سبسیڈی کے لئے 699 ارب روپے کا تخمینہ
گرانٹ کی صورت میں 1242 ارب روپے رکھے گئے ہیں
نئے مالی سال میں تونائی کے لئے 570 ارب روپے کی رقم مختص
اپریل سے جون کے درمیان 214 ارب روپے کی سبسیڈی ادا کی گئی ہے
آئندہ مالی سال پیٹرولیم کے شعبے کو 71 ارب روپے کی سبسیڈی مہیا کریں گے
جلد گیس کے نئے نرخوں کا اعلان کیا جائے گا
صنعتوں کو خطے کے دیگر ممالک کے ریٹ کے مطابق گیس فراہم کی جائے گی
نئے مالی سال میں ہائی ایجوکیشن کے لئے 65 ارب روپے مختص
اس کے علاوہ ہائی ایجوکیشن کے لئے 44 ارب روپے اضافی رکھے گئے ہیں
نئے مالی سال فصلوں اور مویشیوں کی تعداد بڑھانے کے لئے 21 ارب روپے مختص
فصلوں اور مویشیوں کی پیداوار کے لئے 3 سالا پروگرام مرتب
موسمیاتی تبدیلوں کے اثرات، اسمارٹ زرعات کا فروغ اور ایگرو پرسیسنگ منصوبے میں شامل
یوتھ امپلائمنٹ پالیسی کے تحت 20 لاکھ روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں گے
نوجوانوں کو کاروبار کے لئے 5 لاکھ تک بلا سود قرض فراہم کیا جائے گا
ڈھائی کروڑ روپے تک آسان اقساط پر قرض دیا جائے گا
قرضہ اسکیم میں 25 فیصد کوٹہ خواتین کا ہوگا
گرین یوتھ مومینٹ کے تحت لیپ ٹاپ دیے جائیں گے
ملک میں 250 منی اسپورٹس اسٹیڈیم قائم کیے جائیں گے
گیارہ سے 25 سال کی عمر کے افراد کے لئے" ٹیلنٹ ہنٹ" ہوگا
نوجوانوں حوصلہ افزائی کے لئے" انوویشن لیگ" ہوگی
بجلی کی پیداوار اور ترسیل کی مد میں 73 ارب روپے مختص
مہمند ڈیم کی تعمیر کے لئے 12 ارب روپے رکھے گئے ہیں
آبی وسائل کے لئے 100 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے
بھاشا ڈیم جیسے بڑے منصوبے اس پروجیکٹ میں شامل ہونگے
شارہوں اور بندرگاہوں کے لئے 202 ارب روپے کی رقم مختص
سماجی شعبے کے لئے 40 ارب روپے کا تخمینہ
اعلیٰ تعلیم کے منصوبوں کے لئے 51 ارب روپے مختص
صحت کے اداروں کی صلاحیت بڑھانے کے لئے 24 ارب روپے مختص
ماحولیات کے لئے 10 ارب روپے مختص
آئی ٹی شعبے کے لئے 17 ارب روپے مختص
زرعات اور فوڈ سیکیورٹی کے لئے 11 ارب روپے مختص
صنعت ور زرعی پیداوار کے لئے 5 ارب روپے مختص
فلم اور ڈرامہ کی ایکسپورٹ پر ٹیکس ری بیٹ دیا جارہا ہے
سینما اور پروڈیوسرز کی آمدن کو انکم ٹیکس سے استثنی دیا جارہا ہے
سینما، پروڈکشن ہاوسز ، فلم میوزیمز، پوسٹ پروڈکشن فسلیٹی کو سی ایس آر کا درجہ
غیر ملکی فلم سازوں کو مقامی سطح پر شراکت داری کے منصوبوں پرری بیٹ
ان منصوبوں پر 70 فیصد شوٹنگ پاکستان میں لازم ہوگی
ڈسٹری بیوٹرز اور پروڈیوسرز پر عائد 8 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس ختم
فلم وڈراموں کی وآلات کی امپورٹ پر کسٹم ڈیوٹی 5 سال کےلیےختم
نئی فلم ، ڈراموں کے لیے آلات منگوانے پر سیلز ٹیکس صفر
نئی فلم ، ڈراموں کے لیے آلات منگوانے پر انٹرٹینمنٹ ڈیوٹی ختم
نیشنل فلم انسٹیٹیوٹ ، پوسٹ فلم پروڈکشن فسیلٹی اور نیشنل فلم اسٹوڈیو کا قیام ہوگا
اس مقصد کے لئے ایک ارب روپے کی رقم مختص
ٹیکس پالیسی کا مقصد ڈائریکٹ اور کیپیٹل ویلیو ٹیکس پر زیادہ انحصار ہے
موجودہ ٹیکس نظام نئے کاروبار کی حوصلہ شکنی کرتا ہے
موجودہ نظام ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایاکاری کو فروغ ہے
تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس چھوٹ 12 لاکھ کرنے کی تجویز
بزنس انڈیویجول اے او پیز کے لیے انکم ٹیکس چھوٹ کی حد 6 لاکھ کردی
بہبود اور پینشنرزسرٹیفیکیٹ سمیت بینیفٹ اکاونٹ کے منافع پر 5 فیصد ٹیکس کرنے کی تجویز
چھوٹے ریٹیلرز کے لیے فکسڈ انکم اور سیلز ٹیکس کا نظام تجویز
چھوٹے ریٹیلرز پر ٹیکس 3 ہزار سے 10 ہزار روپے تک کرنے کی تجویز
صنعتوں کے لیے پہلے سال ڈیپریسی ایشن چارجز کی حد 100 فیصد ایڈ جسٹمنٹ کی اجازت دینے کی تجویز
صنعتوں کو خام مال کی درآمد کے وقت حاصل ہونے والے تمام ٹیکسز کو ایڈجسٹیبل قرار دینے کی تجویز
صاحب حیثیت افراد کی دولت کا بڑا حصہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں موجود ہے
نان پراڈکٹو ایسٹس میں سرمایاکاری سے غریب طبقے کے لیے مکانات کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں
ایک سے زائد غیر منقولہ جائیداد ملک میں رکھنے والوں پر ٹیکس لگے گا
جائیداد کی مالیت ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہوگی
جائیداد پر فیئر مارکیٹ ویلیو کے برابر فرضی آمدن یا کرایہ تصور کرتے ہوئے ٹیکس عائد کیا جائے گا
ٹیکس کی شرح فیئرمارکیٹ ویلیو کے 1 فیصد کے برابر ہوگی
ہر کسی کا ایک عدد ذاتی رہائشی گھر اس ٹیکس سے مستثنی ہوگا
غیر منقلہ جائیداد کے ایک سال کے ہولڈنگ پیریڈ کی صورت میں 15 فیصد ٹیکس ٹیکس کی تجویز
یہ ٹیکس ہر سال ڈھائی فیصد کم ہوتے ہوئے 6 سال کے ہولڈنگ پیریڈ میں صفرہوجائے گا
فائلرز کے لیے پراپرٹی کی خریدو فروخت پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح م 2 فیصد کرنے کی تجویز
نان فائلرز کے لیے ایڈوانس ٹیکس کی شرح 5 فیصد کرنے کی تجویز
جن افراد اور کمپنیوں کی سالانہ آمدن 30 کروڑ روپے یا اس سے زائد ہے ان پر 2 فیصد ٹیکس ادا کرنے کی تجویز ہے
لگثری گاڑیوں یا 1600 سی سی سے زیادہ پاور کی گاڑیوں پر ایڈ وانس ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے
لگثری گاڑی الیکٹرک انجن کی صورت میں قیمت کے 2 فیصد کی شرح سے ایڈوانس ٹیکس بھی وصول کیا جائے گا
نان فائلرز اگر 1600 سی سی گاڑی خریدتا ہے تو ٹیکس کی شرح کو 100 فیصد سے بڑھا کر 200 فیصد کیا جائے گا
بینکنگ کمپنیوں پر ٹیکس کی موجودہ شرح 39 سے بڑھا کر 42 فیصد کرنے کی تجویز ہے جس میں سپر ٹیکس بھی شامل ہے
پاکستان کا کوئی بھی شہری جو کسی دوسرے ملک کا ٹیکس ریزیڈینٹ نہیں ہے اسے پاکستان کا ٹیکس ریزی ڈینٹ سمجھا جائے گا
کریڈٹ ، ڈیبٹ اور پری پیڈ کارڈز کے ذریعے پاکستان سے باہر رقم بھیجنے والے فائلرز کے لیے 1 فیصد نان فائلرز سے 2 فیصد ایڈ وانس ود ہولڈنگ ٹیکس وصول کیا جائیگا
سولر پینلز کی درآمد اور مقامی سپلائیز کو سیلز ٹیکس سے مستثنی کرنے تجویز ہے
200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والوں کو سولر پینل کی خریداری پر بینکوں سے آسان اقساط پر قرض دلائے جائیں گے
ٹریکٹرز ، زرعی آلات ۔ گندم مکئی کینولا سورج مکھی اور چاول سمیت مختلف اجناس کے بیجوں کی سپلائی پر سیلز ٹیکس واپس لینے کی تجویز ہے
خیراتی ہسپتال کو بجلی سمیت مقامی سپلائیز پر مکمل چھوٹ دینے کی تجویز ہے
بجٹ کی تقریر کا مکمل متن:
سپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بجٹ پیش کیا۔اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف سمیت دیگر ارکان نے بھی شرکت کی جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے حسب معمول ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا گیا اور اپوزیشن کی نشستیں خالی رہیں۔
بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ اتحادی حکومت کا پہلا بجٹ پیش کرنا اعزاز کی بات ہے، حکومت میں تمام اکائیوں کی نمائندگی ہے، چار سالوں سے معاشی ترقی رک گئی اور قومی اتحاد تتر بتر ہو گیا، سابقہ حکومت میں ہر چیز کی قیمت بڑھی، ناتجربہ کار ٹیم نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا، سابق حکومت کے دور میں عام آدمی بری طرح متاثر ہوا، غریب اور متوسط طبقے کی زندگی اجیرن ہو گئی۔ پونے چار سال میں ایک ناتجربہ کار ٹیم نے ملکی معیشت ڈبو دی، گزشتہ حکومت میں ہر سال ایک نیا وزیر خزانہ بجٹ تقریر کرتا رہا۔ یہ لوگ بات کر کے مکر جانے کے ماہر ہیں، یہ عالمی اداروں کے ساتھ بھی بات کر کے مکر گئے۔ انہوں نے عالمی اداروں کے سامنے بھی اپنا موقف تبدیل کیا، معیشت کے سٹرکچر کے بگاڑ کودرست کرنے کے لیے ریفارمز کی ضرورت ہوتی ہے، گزشتہ حکومت اصلاحات سے دامن چراتی ہے، جس وجہ سے آج معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہو سکی۔
انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت کے پاس وقت بہت کم ہے، ہم یہ ذمہ داری آئندہ حکومت پر ڈال سکتے تھے لیکن یہ ملک کا نقصان ہے۔ ہم نے معیشت تباہ حال ہونے کے باوجود اقتدار لیا۔ الیکشن کا اعلان کرتے تو ملک دوبارہ پاوں پر کھڑا نہ ہوسکتا۔ وہ ساری تبدیلیاں کریں گے جس سے ملک کو فائدہ ہو گا، یہ جانتے ہوئے حکومت میں آنے کا فیصلہ کیا کہ معیشت خراب ہے، دوآپشن تھے ایک الیکشن کا اعلان کردیتے، ہم نے دوسرا راستہ اپنا کرمشکل فیصلے کیے، مشکل فیصلوں کی کڑی ابھی مکمل نہیں ہوئی، ہم نے پہلے بھی کیا اوراب بھی کرکے دکھائیں گے۔ ترقی ہوتی ہے تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بے قابو ہو جاتا ہے، ہمیں کوئی نئی سوچ اپنانی ہو گی، ہمیں امرا کے بجائے غریب کوسہولیات دینا ہوں گی، ہم مشکل فیصلوں کیلئے تیار ہیں، ہمیں معاشی ترقی کی مضبوط بنیاد رکھنا ہوگی۔
وزیر خزانہ نے کا کہنا تھاکہ معشیت کے ڈھانچہ جاتی بگاڑ کو درست کرنے کے لیے بنیادی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جس کا ایک فوری منفی رد عمل بھی دیکھنے میں آتا ہے مگر معشیت مضبوط بنیادوں پر استوار ہوجاتی ہے، گزشتہ حکومت ایسے اقدامات سے کتراتی رہی، اس لیے وہ تمام اصلاحات موخر ہوتی رہیں جن کی وجہ سے آج معشیت اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوسکی اور خوشحالی ہم نے دور ہوگئی۔ موجودہ حکومت کے پاس بہت کم وقت ہے، ہم بڑی آسانی سے ان تبدیلیوں کو آئندہ حکومت پر ڈال سکتے تھے لیکن اس میں ملک کا نقصان تھا، اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ وہ تمام تبدیلیاں کی جائیں گی جن نے معشیت اور ملک کو فائدہ ہوگا۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ہم یہ جانتے ہوئے حکومت میں آئے تھے کہ ملک کی معشیت کی حالت خراب ہے، ہمارے پاس دو آپشن تھے، ایک تو یہ کہ ملک کو اسی حالت میں چھوڑتے اور نئے انتخابات کا اعلان کردیتے مگر اس طرح معشیت کا بیڑا غرق ہوجاتا اور ملک کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھانا مزید مشکل ہوجاتا، اس لیے ہم نے دوسرا راستہ اپنایا اور مشکل فیصلے کرنا شروع کیے، یہ ہی ترقی کا راستہ ہے، ہم نے پہلے بھی یہ کیا ہے، ہم کرسکتے ہیں اور ہم کرکے دکھائیں گے۔ ہم نے ہمیشہ قومی مفاد کو اپنے سیاسی مفاد پر ترجیح دی ہے، اس وقت بھی ہماری اولین ترجیح معاشی استحکام ہے، ہماری معشیت کا ایک بنیادی مسئلہ یہ رہا ہے کہ اکثر معاشی ترقی کی شرح 3 اور 4 فیصد کے درمیان رہتی ہے جو ہماری آبادی کی شرح سے مطابقت نہیں رکھتی، اس کے برعکس جب معاشی ترقی کی شرح 5 یا 6 فیصد سے اوپر جاتی ہے تو کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ قابو سے باہر ہوجاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم معیشت کو چلانے کے لیے امیر طبقے کو مراعات دیتے ہیں جس سے درآمدات بڑھ جاتی ہیں جب کہ برآمدات وہیں کھڑی رہتی ہیں۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اس مسئلے سے نمنٹنے کے لیے ہمیں نئی سوچ کو اپنانا ہوگا اور ایک قوم کے طور پر اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا، ہمیں معیشت کو چلانے کے لیے کم آمدنی والے اور متوسط طبقے کو مراعات دینا ہوگی جس سے مقامی پیداوار بڑھے گی اور زراعت کو بھی ترقی ملے گی۔ ہمیں غریب کے معاشی حالات کو سنوارنا ہوگا، غریب طبقے کو سہولتیں دینا ہوں گی تاکہ اس کی آمدن بڑھے، جب غریب کی آمدن بڑھتی ہے تو وہ ایسی اشیا خریدتا ہے جو ملک کے اندر تیار ہوتی ہیں، ایسی اشیائے صرف پر خرچ کی گئی رقم سے درآمدات نہیں بڑھتیں، لیکن ملک کے اندر معاشی ترقی کا عمل شروع ہوجاتا ہے، ایسا کرنے سے ہم مستقل بنیادوں پر جامع ترقی کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں معاشی ترقی کی بنیاد رکھنی ہوگی، ایسی مضبوط بنیاد جس پر مستحکم معاشی ترقی کی شاندار عمارت تعمیر ہوسکے اور جو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ قائم و دائم رہے، ہمیں برآمدات بڑھانے، زراعت، آئی ٹی سیکٹر اور صنعتی برآمدات بڑھانا ہوں گی۔ ہمیں زرعی شعبے کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا اور اپنی برآمدات کی مسابقت کو بڑھانا ہوگا تاکہ وہ عالمی منڈی دیگر ممالک کی مصنوعات کا مقابلہ کرسکیں، ہمیں کاروبار کرنے کے مواقع کو آسان اور بہتر بنانا ہوگا تاکہ مقامی اور بیرونی سرمایہ کار زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں۔ ہمیں مشینری اور خام مال کی درآمد کے بعد اس کی ویلیو میں اضافہ کرکے برآمد کرنا ہوگا، اس طرح جتنی درآمدات بڑھیں گی اس سے کہیں زیادہ بر آمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔
مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ ہمیں تباہ حال معشیت کو درست راہ پر گامزن کرنے کا مشکل چیلنج درپش ہے، گزشتہ پونے 4 سال کے دوران معاشی عدم استحکام جاری تھا، تاریخی مہنگائی، غیر ملکی زر مبادلہ کی مشکلات، زیادہ لاگت پر بے دریغ قرضوں کا حصول، لوڈ شیڈنگ اور اوپر سے مسائل کا حل نکالنے میں ناکام سابقہ حکومت نے عوام کی زندگیوں کو مشکلات سے دوچار اور شکستہ حال بنادیا۔ گزشتہ پونے 4 سال کی بد انتظامی کی وجہ سے پاکستان مہنگائی کے حساب سے دنیا کے بڑے ملکوں میں نمبر 3 پر ہے، ساڑھے سات کروڑ لوگ غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، ان میں دو کروڑ کا اضافہ گزشتہ پونے 4 سال میں ہوا جب کہ اسی دوران ساٹھ لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے، اپنی پونے 4 سال کی مدت میں سابقہ حکومت نے 20ہزار ارب روپے قرض لیا جو لیاقت علی خان اور خواجہ ناظم الدین سے لے کر ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، میاں محمد نواز، شاہد خاقان عباسی اور راجا پرویز اشرف سمیت تمام وزرائے اعظم کی حکومتوں کے 71 سال میں لیے گئے قرضوں کے 80 فیصد کے برابر ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے آمدن سے زیادہ خرچ کیا اور پاکستان کی تاریخ کے 4 بلند ترین خسارے کے بجٹ پیش کیے، ان کا اوسط بجٹ خسارہ 8عشاریہ 6 فیصد کے قریب رہا، اس دوران سالانہ تقریبا 5 ہزار ارب روپے کا قرض بڑھایا گیا اور رواں مالی سال میں پانچ ہزار 100ارب روپے کا خسارہ متوقع ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح بجلی کا گردشی قرضہ ایک ہزار 62ارب روپے سے بڑھ کر جو ہم مئی 2018 میں چھوڑ کر گئے تھے، اب ڈھائی ہزار ارب روپے کا ہوگیا ہے اور ملکی تاریخ میں پہلی بار گیس کے شعبے میں گردشی قرضہ دیکھنے میں آیا ہے جو مارچ 22-2021 میں ایک ہزار 400 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ نواز شریف کے دور حکومت میں مہنگائی کم سے کم کی گئی، مہنگائی کی شرح تقریبا 5 فیصد کے قریب تھی جب کہ افراط زر کی کم سے کم شرح 3عشاریہ 9 فیصد ریکارڈ کی گئی، گزشتہ پونے 4 سال کی بد انتظامی کی وجہ سے پاکستان ایک مستقل مہنگائی کی لہر میں ہے کیونکہ گزشتہ وزیراعظم کہتے تھے کہ میں پیاز اور ٹماٹر کے ریٹ دیکھنے نہیں آیا بلکہ ملک کو عظیم بنانے آیا ہوں، مجھے نہیں معلوم کہ غریب آدمی کی مہنگائی کی چکی میں پیس کر کوئی ملک کیسے عظیم بن سکتا ہے۔
مفتاح اسماعیل کا کہنا تھاک کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ عمران خان کی حکومت آتے ہی چینی اور آٹے کی قیمتیں کیوں بڑھ گئیں، 2013 میں چینی کی قیمت 55 روپے فی کلو تھی اور 2018 میں جب ہم گئے تو چینی کی قیمت 53 روپے تھی مگر پھر 2018 کے بعد چینی کی قیمت کو پر لگ گئے اور اس کی قیمت 140 روپے سے تجاوز کر گئی۔ پھر وزیراعظم شہباز شریف آئے جو چینی کی قیمت 70 روپے فی کلو پر لے آئے، اسی طرح ہم 2018 میں آٹے کی قیمت 35 روپے فی کلو چھوڑ کر گئے جو نئے پاکستان میں بڑھ کر 80 روپے فی کلو تک پہنچ گئی، پھر شہباز شریف نے یوٹیلٹی اسٹورز اور بہت سی دکانوں پر آٹا 40 روپے فی کلو فراہم کرنا شروع کیا۔
انہوں نے کہا کہ جب 2018 میں ہماری حکومت گئی تو پاکستان گندم اور چینی برآمد کر رہا تھا مگر اب ہم دونوں چیزیں درآمد کر رہے ہیں جس کی وجہ سابقہ حکومت کے غلط فیصلے ہیں۔ ہمارے ایل این جی کے معاہدوں پر جھوٹے الزامات لگائے گئے جس کی وجہ سے کئی رہنماؤں کو جیل کاٹنا پڑی، سابقہ حکومت نے کورونا کے دوران سستے ترین نرخوں پر معاہدے کرنے کے بجائے مہنگے داموں پر اسپاٹ خریداری کی، اس کی وجہ سے ہمیں مہنگی ایل این جی خریدنا پڑھ رہی ہے۔ جب عمران خان کو فروری کے آخر میں لگا کہ ہماری حکومت جارہی ہے تو انہوں نے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم کیں جب کہ پاکستان کا خزانہ قرضے پر چل رہا تھا، اس فیصلے سے پاکستان کی معیشت بحران میں پھنس گئی جس کو نکالنے کی کوشش جاری ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے پیش نظر غریب طبقے کو تحفظ دینے کا فیصلہ کیا، 40 ہزار روپے ماہانہ کم آمدنی والے خاندانوں کو 2 ہزار روپے ماہانہ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ 2013 سے 2018 کے درمیان پاکستانی کرنسی میں استحکام نظر آیا مگر پھر معاشی بد انتظامی کی بنا پر 2018 سے 2022 کے درمیان روپے کی قدر میں کمی واقع ہوئی، روپے کے مقابلے میں ڈالر 115 روپے سے 189 تک پہنچ گیا اور آفر شاکس کی وجہ سے 200 کی حد بھی پار کرگیا، ہم نے کرنسی کو مستحکم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سے ریلیف دیا جائے، اس مقصد کے لیے امداد اور سبسڈی کے اقدامات کیے ہیں، اس مقصد کے لیے امیر لوگوں پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جب کہ زرعی پیداوار میں اضافہ کریں گے، صنعتوں کو ترقی دیں گے، برآمدات میں اضافہ کریں گے جس سے زر مبادلہ حاصل ہوگا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ نئے محصولات کے ساتھ ساتھ حاصل ہونے والے محصولات کے انتظام و انصرام کو بہتر بنایا جائے گا، کفایت شعاری حکومت کی ترجیح ہے، حکومتی اخراجات میں کمی اس بجٹ کا حصہ ہے، گاڑیوں، فرنیچر پر پابندی ہوگی، کابینہ اور سرکاری اہلکاروں کی پیٹرول کی حد کو 40 فیصد کم کیا جائےگا، لازمی دوروں کے علاوہ دوروں پر پابندی ہوگی۔ بجٹ میں پینشن کی مد میں اگلے مالی سال میں 530 ارب روپے کا تخمینہ ہے، ملک کی معیشت کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے نظام وضع کیا ہے جب کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے بغیر معاشی ترقی حاصل کرنا چیلنج ہے، اگلے سال توازن کو خراب کیے بغیر کم از کم 5 فیصد گروتھ حاصل کی جائے گی، اس طرح جی ڈٰی پی کو 67 کھرب روپے سے بڑھا کر اگلے مالی سال کے دوران 78 عشاریہ 3 کھرب روپے تک پہنچایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت افراط زر 11.7 فیصد ہے جو کہ گزشتہ دس برسوں کے مقابلے میں سب سے بلند سطح پر ہے، فسکل پالیسی اور مالیاتی پالیسی کو بہتر بناتے ہوئے مہنگائی کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اگلے مالی سال میں افراط زر میں کمی کرکے گیارہ عشاریہ پانچ فیصد پر لایا جائےگا۔ ایمرجنگ مارکیٹ ممالک میں ٹیکس کی شرح جی ڈی پی کا تقریبا 16 فیصد ہےمگر پاکستان میں یہ شرح 8 عشاریہ 6 فیصد ہے، اگلے مالی سال کے دوران یہ شرح 9عشاریہ 2 فیصد تک لے جانے کی تجویز ہے، 2017،18 میں یہ 11 عشاریہ ایک فیصد پر چھوڑ کر گئے تھے۔
مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ اس سال جی ڈی پی کا مجموعی خسارہ 8 عشاریہ 6 فیصد ہے، اس میں بتدریج کمی کی جائے گی، اگلے سال میں کمی لا کر 4 عشاریہ 9فیصد تک کیا جائےگا، اسی طرح مجموعی پرائمری بیلنس جو جی ڈی پی کا منفی 2 عشاریہ 4 فیصد ہے اس میں بہتری لا کر اگلے مالی سال میں اس کو مثبت صفر عشاریہ انیس فیصد پر لایا جائے گا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت برآمدات میں اضافے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، درآمدات اس وقت 76 ارب ڈالر کی متوقع ہیں، اگلے سال ان میں کمی 70 ارب ڈالر کی سطح پر لائی جائیں گی، برآمدات اس وقت 31 عشاریہ 3 ارب ڈالر ہیں، اگلے مالی سال ان کو 35 ارب ڈالر تک بڑھانے کے اقدامات کیے جائیں گے، کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کو جی ڈٰی پی کے منفی 4 عشاریہ ایک فیصد سے گھٹا کر الگے مالی سال میں جی ڈی پی کے منفی 2۔2 فیصد پر لایا جائےگا۔ رواں سال ترسیلات زر 31 عشاریہ ایک ارب ڈالر ریکارڈ ہوں گی۔ اگلے مالی سال میں ترسیلات زر 33 عشاریہ 2فیصد ارب ڈالر تک بڑھنے کی توقع ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سال سود کی ادائیگی میں کل 3، 144 ارب روپے ہوں گے جس میں مقامی سود کی ادائیگی 2،770 ارب روپے بیرونی سود کی ادائیگی 373 ارب روپے ہونے کا تخمینہ ہے جب کہ اگلے سال اس مد میں کل ادائیگی 3 ہزار 950 ارب روپے ہونے کا تخمینہ ہے جس میں سے 3ہزار 439 ارب اندرونی اور 511 ارب روپے غیر ملکی قرضوں پر خرچ ہوں گے۔ عوامی قرض جو کہ 18-2017 میں 25ہزار ارب روپے تھا، مارچ 2022 میں 44 ہزار 365 ارب روپے تک پہنچ گیا جو جی ڈی پی کا 72 عشاریہ 5فیصد ہے، ہم نے مالی سال کے آخری دو ماہ میں اخراجات میں کمی کے ذریعے قرض میں اضافے کی رفتار کو کم کیا ہے، قانون کے مطابق حکومت کے قرض لینے کی حد جی ڈی پی کا 60 فیصد مقرر کی گئی ہے۔ بجٹ کا تخمینہ بتانے سے پہلے آمدنی اور اخراجات کا جائزہ پیش کرتا ہوں۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ جانب اسکیم اگلے مالی سال کے لیے 8 سو ارب روپے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام ( پی ایس ڈی پی) کے لیے رکھے گئے ہیں، ہم نے 2017-18 میں وفاقی ترقیاتی بجٹ ایک ہزار روب روپے چھوڑا تھا جو موجودہ حکومت نے تقریباً آدھا کردیا۔ ہم جاری منصوبوں کو مکمل کرنے پر توجہ دیں گے تاکہ ان پر لگائی گئی رقمیں ضائع نہ ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی ترقی پر زیادہ رقم خرچ کی جائے گی تاکہ بلوچستان ملک کے باقی حصوں کے برابر لایا جاسکے۔ صوبوں خصوصی علاقہ جات (آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان) کے لئے پی ایس ڈی پی میں ایک سو 36 ارب روپے کر دی گئی ہے۔ ڈیم اور دیا میر بھاشا ڈیم کو وقت سے قبل مکمل کرنے کے لئے اضافی رقوم مختص کی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چین کی سرحد سے دونوں بندرگاہوں کو ملانے والی شاہروں کو مکمل کیا جائے گا۔ سی پیک کے تحت انفرااسکٹرچر اور اقتصادی زونز کے منصوبوں میں تیزی لا کر ترقی کی رفتار بڑھانے اور برآمدات میں اضافہ کرنے پر توجہ دی گئی ہے۔ 3 سو 95 ارب روپے انفراسٹرکچر کے لئے رکھے گئے ہیں۔ توانائی / بجلی کی ترسیل اور تقیسم کو بہتر بنانا حکومت کی ترجیح ہے، بجلی کے شعبے کے لیے 73 ارب روپے کی رقم مہیا کی جائے گی جس میں سے 12 ارب روپے مہمند ڈیم کی جلد تکیمل کے لیے خرچ کئے جائیں گے۔ آبی وسائل کے لئے بڑے ڈئیموں، دیامر بھاشا، مہمند، داوس، نئی گاج ڈیم اور کمانڈ ایریا پروجیکٹس کے کے لیے بجٹ میں سو ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ چھوٹے ڈیموںِ نکاسی آب کی اسکمیوں، توانائی اور آبی وسائل کے منصوبوں کے لیے ایک سو 83 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
بجٹ تقریر کے بعد مفتاح اسماعیل نے ایوان میں فنانس بل 2022 پیش کیا۔ وزیر خزانہ کی جانب سے فنانس بل پیش کیے جانے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے ایوان کی کارروائی 13 جون بروز پیر سہہ پہر 4 بجے تک ملتوی کردی۔