لاہور: (دنیا نیوز) ہندوتوا نظریہ نے بھارتی معاشرت اور معیشت کو نقصان پہنچایا، جسے جنوبی بھارت کی ریاستوں نے بڑی حد تک مسترد کر دیا، یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کی ان علاقوں میں کم نمائندگی ہے۔
جنوبی ریاستیں بھارت کی مجموعی ٹیکس آمدنی کا تقریباً 60 فیصد حصہ فراہم کرتی ہیں، جنوبی ریاستیں 1.2 ٹریلین روپے کی غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری (FDI) میں حصہ ڈالتی ہیں لیکن انہیں وفاقی مختصات میں صرف 35 فیصد حصہ ملتا ہے۔
جنوبی بھارت کی آبادی کی بڑھنے کی شرح شمالی بھارت کے نصف کے قریب ہے، پھر بھی ہر حلقہ بندی کے دور میں اس کی پارلیمانی نشستیں کم ہو رہی ہیں، نئی مردم شماری اور حلقہ بندی مزید جنوبی ریاستوں کی نمائندگی کم کرنے کے لئے متوقع ہے۔
شمال جنوب کی تقسیم ہندوستانی خارجہ پالیسی کو براہ راست متاثر کرتی ہے، خاص طور پر اس کے مغربی اور شمالی پڑوس کی طرف۔
جنوب کو چین بھارت کشیدگی یا پاک بھارت تنازعات کی کوئی فکر نہیں ہے جبکہ شمال سیاسی طور پر بی جے پی کی انتہائی قوم پرست سیاست سے متاثر ہے، شمالی بھارت کے مقبولیت پسند بیانیے کے برعکس، جنوبی بھارت نے مسلسل ہندوتوا نظریہ کے خلاف مزاحمت کی ہے۔
2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کیرالہ اور تامل ناڈو میں ناکام رہی، جبکہ آندھرا پردیش میں 25 میں سے 1 اور تلنگانہ میں 17 میں سے 4 سیٹیں جیت سکی، جنوبی بھارت میں لبرل اور جمہوری اقدار شمالی بھارت کی نسبت زیادہ مضبوط ہیں۔
بھارتی فوج بھی شمالی اور جنوبی نسلی تقسیم سے متاثر ہے، جس سے سینئر سیاسی، فوجی قیادت کے درمیان اہم فرق پیدا ہوتا ہے، جو اپنے اپنے علاقوں کی بنیاد پر اپنے ساتھیوں کو اعلیٰ عہدوں پر ترقی دینے، تعیناتیوں اور فلاحی فوائد فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
جنوبی بھارت میں ’وی ڈریوڈیئنز’ تحریک 1938ء سے ہندو مخالف پراپیگنڈے میں پیش پیش رہی ہے۔
دیوِندا نادو نے ’’تامل ناڈو صرف تاملوں کے لئے‘‘ کا نعرہ دیا، جو تامل ناڈو، کیرالہ اور کرناٹک کی ڈریوڈیئن ریاستوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کیا گیا تھا لیکن اُس وقت یہ عملی شکل اختیار نہ کر سکا۔
تقسیم کے بعد بھی شمال اور جنوب کی تقسیم برقرار رہی، حالانکہ دراویدہ نادو کی مقبولیت کم ہو گئی۔
’’ہم دراوڑی‘‘ تحریک کے کارکن ہندو مذہب کے پیروکاروں اور شمالی بھارتیوں کے خلاف نفرت پھیلاتے ہوئے جنوبی بھارت کی علیحدگی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ان کا مقصد ہندوتوا بی جے پی کے نظریاتی اختلافات کو اجاگر کرنا، بھارت کو سیکولر بنانا اور شمالی اجارہ داری سے بچتے ہوئے جنوبی بھارت کی ثقافتی شناخت کا تحفظ ہے۔
اس کے علاوہ، جنوبی آزادی کے لئے دیگر تحریکوں کا اُبھار ہو رہا ہے، جن میں مودی حکومت کے ظلم و ستم کے درمیان خودمختاری کے حق کے لئے آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔
سول سوسائٹی کو چاہئے کہ وہ مودی حکومت کو ہندوتوا نظریہ سے متاثر ہونے سے روکے تاکہ بھارتی معاشرتی تقسیم مزید نہ بڑھے اور ریاست و معاشرے پراس کے سنگین اثرات نہ ہوں۔