تہران: (دنیا نیوز) وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان تاریخی تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جانا چاہتے ہیں، تہران کے ساتھ توانائی کے معاملات پر بھی بات چیت کی گئی، دنیا کو بھارت میں اسلاموفوبیا کے واقعات کی مذمت کرنا ہوگی۔
تہران میں اپنے ایرانی ہم منصب حسین امیرعبداللہیان کے ساتھ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اضافی بجلی کی درآمد کے ذریعے توانائی کے شعبے میں ایران کے ساتھ اپنے تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہے۔
تجارت کے بارے میں بلاول نے کہا کہ انہیں خوشی ہے پاکستان اور ایران بارٹر ٹریڈ میکانزم کو فعال کرنے، سرحد پار تبادلے کو باضابطہ بنانے کے ذریعے دوطرفہ تجارت کی توسیع میں بڑی رکاوٹوں میں سے ایک کو حل کرنے کے قریب آ گئے ہیں۔ نئی سرحدی کراسنگ اور سرحدی منڈیوں کے ذریعے تجارت کو فروغ ملے گا۔ اس طرح کے اقدامات بہتر اقتصادی اور تجارتی سرگرمیوں کے مواقع کی فراہمی کے لیے ہمارے مشترکہ عزم کے اقدامات ہیں جن سے ایران اور پاکستان کے عوام کو فائدہ ہو گا، ان سے سرحد پر لوگوں کی زندگی اور بہبود کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایرانی وزیر خارجہ کے ساتھ افغانستان میں تازہ ترین پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا اور اتفاق کیا کہ اس نازک موڑ پر افغانوں کی مدد کی جانی چاہیے، اور امریکا میں منجمد افغانستان کے اربوں ڈالرز انہیں واپس ملنے چاہئیں۔
بلاول نے کہا کہ عبداللہیان کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال سے بھی آگاہ کیا اور مسئلہ کشمیر پر ایرانی قیادت کی مستقل حمایت پر شکریہ ادا کیا۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایران کے عالمی اداروں کے ساتھ جوہری معاہدے کے مذاکرات میں تہران کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس دن کا انتظار کر رہا ہوں جب یہ مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچیں اور ایرانی عوام کی مشکلات میں کمی ہو۔
ایرانی وزیر خارجہ
اس موقع پر ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ کی میزبانی کرنے پر خوش ہوں، اسلامی دنیا کے دو عظیم ممالک ایران اور پاکستان کے درمیان گہرے تعلقات ان تمام سالوں میں امید افزا رہے ہیں اور ہم نے نئی حکومت میں تعاون کی ترقی پر مبنی تعلقات قائم کیے ہیں۔ آج میرے پاس پاکستان کے وزیر خارجہ کے لیے ایک شاندار تحفہ ہے، میرے پاس بے نظیربھٹو کے مشہد کے سفر اور امام رضاؑکی زیارت کا ایک فوٹو البم ہے، میں یہ البم پہلے موقع پر بطور تحفہ ان کو پیش کروں گا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ آج ہم نے دو طرفہ تعلقات اور تعاون اور سرحدی بازاروں اور تہران اور اسلام آباد کے درمیان مشترکہ نقطہ نظر اور سیاسی پوزیشنوں کو اپناتے ہوئے مقامی تجارت اور صوبائی تعاون کے فروغ کے بارے میں بات کی۔ ہم نے بین الاقوامی میدان میں ثقافتی-سیاحتی تعاون کے ساتھ ساتھ اقتصادی اور تجارتی مسائل کے بارے میں بات کی۔دونوں ملکوں کے درمیان جو مسئلہ کافی عرصے سے چل رہا ہے وہ ایران سے پاکستان کو گیس کی برآمدات اور اس ملک کو برآمدات میں اضافے کا مسئلہ ہے، ہم نے اس پر بات کی۔ امریکی یکطرفہ پابندیوں کے باوجود، بین الاقوامی میدان میں ایسے میکنزم موجود ہیں جن سے ہمیں امید ہے کہ بہترین ممکنہ طریقے سے تعاون جاری رکھ سکیں گے۔
عبداللہیان نے کہا کہ افغانستان اور فلسطین سمیت علاقائی مسائل بھی دوطرفہ بات چیت کا محور تھے، انہوں نے کہا کہ ہم یوکرین میں جنگ کے خلاف ہیں اور ہم اس بحران کے حل کے لیے ایران، روس اور یوکرین کے درمیان کام کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے زور دے کر کہ که ہمیں امید ہے کہ افغانستان میں بحران کی جڑیں ایک جامع حکومت کے قیام سے خشک ہو جائیں گی۔ افغانستان کا حل ایک جامع حکومت کا قیام ہے اور ہمیں امید ہے کہ افغانستان جتنی جلدی ہو سکے امن و سکون کی راہ پر گامزن ہو گا۔ اسلامی جمہوریہ ایران یمن میں جنگ بندی کی حمایت کرتا ہے، ہم یمن کا محاصرہ مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور ہم یمن انٹراڈائیلاگ مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔ ایران فلسطین میں ایک متحد فلسطینی حکومت کی تشکیل پر زور دیتا ہے اور اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اسلامی ریاستوں کو صہیونی ریاست جو عالم اسلام کے خلاف جو دھمکی آمیز اور دشمنانہ اقدامات اٹھا رہی ہے کیخلاف متحد ہونا ہوگا۔
امیر عبداللہیان نے کہا کہ اس ملاقات میں ہم نے آئی اے ای اے کی قرارداد کی منظوری اور مذاکراتی عمل کے بارے میں بات کی اور ایران نے کبھی بھی مذاکرات کی میز کو نہیں چھوڑا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ مذاکرات اور سفارت کاری ہی آخری نقطہ تک پہنچنے کا بہترین راستہ ہے۔ ہم نے حالیہ مہینوں میں باقری کی ویانا میں مورا اور گروہ 1+4 ممالک کے ساتھ کیے گئے مذاکرات اور اس عرصے کے دوران ایران اور امریکہ کے درمیان پیغامات کے تبادلے میں ثابت کیا ہے کہ ہم مکالمے اور منطق کے لوگ ہیں اور ایک اچھے، مضبوط اور دیرپا معاہدے پر پہنچنے پر سنجیدہ ہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ گذشتہ جمعرات کو پیغامات کے تسلسل کے باوجود امریکی فریق نے ایران پر دباؤ ڈالنے اور بالواسطہ مذاکرات میں پوائنٹس حاصل کرنے کے لیے ایک قرارداد پیش کی اور اس کے باوجود کہ امریکا نے کہا کہ یہ قرارداد مواد سے خالی ہے۔ ہم نے نیا سیاسی پیکج میز پر رکھا لیکن امریکہ نے قرارداد پاس کرنے پر اصرار کیا۔ اب، قرارداد کے آگے، ایران کے مزید جوہری اقدامات ہیں۔ ہم بات چیت اور مذاکرات سے نہیں بھاگیں گے، اور اس سمت میں، مورا اور بورل کے ذریعے سفارتی ذرائع سے ہماری بات چیت کا تبادلہ کیا جا رہا ہے۔ ایران اچھے، مضبوط اور پائیدار معاہدے تک پہنچنے کے لیے سفارت کاری اور مذاکرات کی منطق سے دور نہیں ہوگا۔