لاہور: (ویب ڈیسک) وفاقی حکومت نے بڑی صنعتوں پر 10 فیصد کے حساب سے ’سپر ٹیکس‘ لگانے کا اعلان کیا ہے، اس ٹیکس کے لگانے کے بعد تحریک انصاف کے رہنماؤں نے شدید کی ہے تو دوسری طرف ٹیکس لگنے کے بعد پاکستان سٹاک مارکیٹ فوری کریش گئی، اب سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہ سپر ٹیکس ہوتا کیا ہے؟
سپر ٹیکس بتانے سے قبل بتاتے چلیں کہ وزیر خزانہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ’سپر ٹیکس‘ کے بارے میں وضاحت دیتے ہوئے بتایا کہ سپر ٹیکس 4 فیصد کے حساب سے تمام شعبوں پر لگے گا جبکہ 13 صنعتی شعبوں پر چھ فیصد کے حساب سے اضافہ کر کے ان سے دس فیصد کی شرح سے یہ سپر ٹیکس وصول کیا جائے گا جس کے بعد ان پر ٹیکس وصولی کی شرح 29 فیصد سے 39 فیصد ہو جائے گی۔ یہ ٹیکس صرف ون ٹائم یعنی ایک مالی سال کے لیے لگایا گیا ہے اور اس کے ذریعے سابقہ چار ریکارڈ بجٹ خساروں کو کم کیا جائے گا۔
Just to clarify: the super tax of 4% will be applicable to all sectors. But for the specified 13 sectors, another 6% will be added for a total of 10%. So their tax rates will go from 29% to 39%. This is a one-time tax needed to curtail the previous four record budget deficits.
— Miftah Ismail (@MiftahIsmail) June 24, 2022
حکومت کی جانب سے سپر ٹیکس کی اصطلاح استعمال ہونے کے بعد سوشل میڈیا صارفین’نئے‘ ٹیکس کی وضاحتیں طلب کرتے نظر آ رہے ہیں وہیں معاشی ماہرین ٹیکس کے نفاد کے معاشی صورتحال پر پڑنے والے اثرات پر آرا کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ اپوزیشن نے دعویٰ کیا ہے سپر ٹیکس کا نفاذ ملک میں مہنگائی میں اضافے کا باعث بنے گا۔
سپر ٹیکس کیا ہے ؟
برطانوی خبر رساں ادارے میں شائع ہونے والی رپورٹ میں ماہر ٹیکس امور اشفاق تولہ اور ڈاکٹر اکرام الحق نے بتایا کہ یہ ایک خاص ٹیکس ہوتا ہے اور عمومی ٹیکس کے اوپر لگایا جاتا ہے۔ سپر ٹیکس لگ سکتا ہے تاہم ٹیکس لگاتے ہوئے اس کا مقصد بیان نہیں کیا جاتا۔ اس سپر ٹیکس کو لگاتے ہوئے حکومت نے اس کا مقصد بیان کر دیا ہے اس سے اکٹھے ہونے والے پیسے کو غربت کے خاتمے کے لیے استعمال کیے جائیں گے، جو غلط ہے۔ جب کسی ٹیکس کو لگانے کا مقصد بیان کر دیا جائے تو وہ لیوی ہوتی ہے اور اس کی منظوری پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے حاصل کی جاتی ہے۔
سپر ٹیکس لگانے کا مقصد کیا ہے؟
وزیر خزانہ نے ٹویٹ میں کہا کہ سپر ٹیکس کے ذریعے گذشتہ چار ریکارڈ بجٹ خساروں کو کم کیا جائے گا۔ جبکہ وزیر اعظم نے کہا کہ اس ٹیکس سے اکٹھے ہونے والے پیسوں کو غربت کے خاتمے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
اشفاق تولہ اور ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا کہ یہ ٹیکس حالات کو دیکھ کر لگایا جاتا ہے اور ایمرجنسی کی صورت میں کوئی بھی حکومت ہنگامی اقدامات کے تحت اسے عائد کر سکتی ہے۔ ٹیکس کا مقصد یہی ہے زیادہ پیسے اکٹھے کیے جائیں گے لیکن اس ٹیکس کے ذریعے پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والے شعبوں پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ اگر زیادہ پیسے اکٹھے کرنے ہیں تو اس کے دوسرے بھی طریقے ہیں کہ جس میں بجٹ میں دی جانے والی ٹیکس چھوٹ کو ختم کیا جائے اس کے ساتھ غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی لائی جائے۔ زرعی ٹیکس اور ہول سیلرز اور ٹریڈرز کے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جانا چاہیے لیکن حکومت نے پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والے شعبوں پر ہی زیادہ ٹیکس ڈال دیا ہے۔
سپر ٹیکس صنعتی شعبوں کو کیسے متاثر کرے گا؟
وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے دس فیصد کی شرح سے سپر ٹیکس 13 صعنتی شعبوں پر لگانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
ان شعبوں میں سیمنٹ، بینکنگ، ایوی ایشن انڈسٹری، ٹیکسٹائل، آٹو موبائل، شوگر، بیوریج، سٹیل، تیل و گیس، فرٹیلائزر، سگریٹ، کیمیکل کے شعبے کی انڈسٹریاں شامل ہیں جنھیں دس فیصد کے حساب سے یہ ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔
پاکستان میں ان شعبوں کے علاوہ دوسرے صعنتی شعبے چار فیصد کے حساب سے ٹیکس ادا کر رہے ہیں اور درج بالا پر چار فیصد شرح میں چھ فیصد کی شرح سے اضافہ کر کے ان پر سپر ٹیکس کی صورت میں دس فیصد ٹیکس کی شرح کر دی گئی ہے۔