اسلام اور سلام

Published On 12 August,2022 11:09 am

لاہور: (مفتی محمد وقاص رفیع) دنیا کی ہر مہذب قوم میں اس بات کا رواج چلا آ رہا ہے کہ جب آپس میں ملاقات کریں تو کوئی کلمہ آپس کی موانست اور اظہارِ محبت کیلئے ایک دوسرے سے کہیں۔ اسی حقیقت کے پیش نظر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بھی مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہوئے باہمی موانست و اظہارِ محبت کیلئے ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو ’’سلام‘‘ کرنے اور دوسرے مسلمان کا پہلے مسلمان کے ’’سلام‘‘ کا جواب دینے کا حکم صادر فرمایا۔ ارشاد ربانی ہے: ’’اور جب تم کو کوئی سلام کرے تو تم اس سے اچھے الفاظ میں ’’سلام ‘‘ کرو (یعنی جواب دو) یا (جواب میں ) ویسے ہی الفاظ کہہ دو۔

قرآن مجید میں لفظ ’’سلام‘‘ کیلئے ’ ’تحیہ‘‘ کالفظ مذکور ہے جس کے لفظی معنی ہیں کسی کو ’’حیاک اللہ‘‘ کہنا ، (یعنی اللہ تعالیٰ تم کو زندہ رکھے)۔زمانہ قبل از اسلام میں عرب لوگوں کی عادت یہ تھی کہ جب وہ آپس میںملتے تھے تو ایک دوسرے کو ’’حیاک اللہ‘‘ یا ’’ انعم اللہ بک عینا‘‘ یا ’’ انعم صباحا‘‘ وغیرہ الفاظ سے ’’سلام‘‘ کیا کرتے تھے۔ اسلام نے اس ’’طرزِ تحیہ‘‘ کو بدل کر ’’ السلام علیکم ‘‘ کہنے کا طریقہ جاری کیا، جس کے معنی ہیں: ’’تم ہر تکلیف اور رنج و مصیبت سے سلامت رہو‘‘۔

علامہ ابن العربیؒ نے اپنی مایہ ناز تصنیف’’ احکام القرآن‘‘ میں لکھا ہے کہ لفظ ’’سلام ‘‘اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے اور ’’ السلام علیکم‘‘ کے معنی ہیں ’’اللہ رقیب علیکم ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ تمہارا محافظ اور نگہبان ہو۔ (احکام القرآن لابن العربی)

اسلامی سلام‘‘ کا اگر دیگر مہذب قوموں کے ’’سلاموں‘‘ کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو واضح طور پر معلوم ہوگا کہ ’’اسلامی سلام‘‘ جتنا جامع ہے کوئی دوسرا ’’سلام‘‘ اتنا جامع نہیں ہو سکتا، اس لئے کہ ’’اسلامی سلام‘‘ میں صرف موانست و اظہارِ محبت ہی نہیں بلکہ ساتھ ساتھ ادائے حق محبت بھی ہے۔ اس میں ایک سلام کرنے والا مسلمان بھائی اپنے دوسرے مسلمان بھائی کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ آپ کو تمام آفات و بلیات سے سلامت رکھے‘‘۔ پھر دعا بھی عرب لوگوں کے طرز پر صرف زندہ رہنے کی نہیں بلکہ ’’حیاتِ طیبہ‘‘ (یعنی تمام آفات و بلیات سے محفوظ رہنے) کی دعا ہوتی ہے۔ اس معنی و مفہوم کے اعتبار سے یہ کلمہ (سلام) ایک عبادت بھی ہے اور اپنے مسلمان بھائی کو اللہ تعالیٰ کی یاد دلانے کا ذریعہ بھی۔

نبی کریمﷺ نے مسلمانوں کے باہمی ’’سلام‘‘ کو رواج دینے کی بڑی تاکید فرمائی ہے اور اس عمل کو سب اعمال سے افضل قرار دیا ہے۔ اس کے فضائل و برکات اور اس کا (خوب) اجر و ثواب بیان فرمایا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتے جب تک کہ تم مومن نہ ہو، اور تمہارا ایمان (اس وقت تک) مکمل نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو، میں تم کو ایک ایسی چیز بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کر لو تو تمہارے آپس میں محبت قائم ہوجائے گی، وہ یہ کہ آپس میں ’’سلام‘‘ کو عام کرو، یعنی ہر مسلمان کو سلام کرو خواہ اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو‘‘ (صحیح مسلم:1753)۔

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں ’’ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا، اسلام میں سب سے افضل عمل کونسا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ تم لوگوں کو کھانا کھلاؤ اور سلام کو عام کرو‘‘(صحیح بخاری:6236، صحیح مسلم: 39)۔

حضرت ابو امامہ الباہلیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو سلام کرنے میںپہل کرے۔ ‘‘ (جامع ترمذی : 2694، سنن ابی داؤد:5197 )

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ بڑا بخیل وہ شخص ہے جو سلام کرنے میں بخل کرے‘‘ (طبرانی، معجم کبیر 10399)۔

نبی کریم ﷺ کے ان ارشادات کا صحابہ کرامؓ پر جو اثر ہوا اس کا اندازہ صرف ا س ایک روایت سے ہوجاتا ہے جو حضرت طفیل بن ابی بن کعبؓ سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اکثر بازار میں صرف اس لئے جایا کرتے تھے کہ جو مسلمان ملے اس کو سلام کر کے عبادت کا ثواب حاصل کیا جائے، کچھ خریدنا نہیں ہوتا تھا۔ (مؤطا امام مالک: 3533)

سب سے افضل تو یہ ہے کہ سلام کا جواب اس سے بہتر الفاظ میں دیا جائے ، اگر یہ نہ ہو سکے تو کم از کم ویسے ہی الفاظ اس کے جواب میں کہہ دینے چاہئیں جیسے کہ سلام کرنے والے نے کہے ہوں۔ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ایک صاحب آئے اور کہا: ’’السلام علیک یا رسول اللہﷺ!‘‘ آپ ﷺ نے اس کے جواب میں فرمایا: ’’ وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ‘‘۔ پھر ایک دوسرے صاحب آئے اور انہوں نے کہا ’’ السلام علیک یا رسول اللہ و رحمۃ اللہ‘‘۔ آپ ﷺ نے اس کے جواب میں ایک اور کلمہ بڑھا کر فرمایا: ’’وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘۔ پھر ایک تیسرے صاحب آئے اور انہوں نے کہا ’’السلام علیک یارسول اللہ و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘۔ آپ ﷺ نے جواب میں صرف ایک کلمہ: ’’وعلیک‘‘ ارشاد فرمایا ، ان کے دل میں شکایت پیدا ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہﷺ! پہلے جو حضرات آئے آپﷺ نے ان کے جواب میں کئی کلمات دعا کے ارشاد فرمائے اور میں نے ان سب الفاظ سے سلام کیا تو آپ ﷺ نے ’’ وعلیک‘‘ پر اکتفاء فرمایا‘‘۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ’’ تم نے ہمارے لئے کوئی کلمہ چھوڑا ہی نہیں کہ ہم جواب میں اضافہ کرتے، تم نے سارے ہی کلمات اپنے ’’سلام‘‘ میں جمع کر دیئے (ابن جریر و ابن ابی حاتم ج05، ص432)۔

اس سے معلوم ہوا کہ سلام کا جواب اس سے اچھے الفاظ میں دینے کا مطلب یہ ہے کہ مزید الفاظ بڑھا کر جواب دیا جائے اور الفاظ کا یہ بڑھانا بھی صرف تین کلمات تک ہی مسنون ہے۔ اس سے زیادہ مسنون نہیں۔

جب کسی مسلمان کو ’’سلام‘‘ کیا جائے تو اس کے ذمہ جواب دینا واجب ہو جاتا ہے، اگر بغیر کسی شرعی عذر کے وہ جواب نہ دے تو وہ گناہ گار ہو گا۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’سوار کو چاہیے کہ وہ پیدل چلنے والے کو سلام کرنے میں پہل کرے،پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرنے میں پہل کرے، اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کرنے میں پہل کریں(جامع ترمذی: 2703)۔ اسی طرح گھر میں داخل ہوتے وقت سب سے پہلے اپنے گھر والوں کو سلام کرنا چاہیے کہ اس سے ’’سلام‘‘ کرنے والے کیلئے بھی برکت ہو گی اور اس کے گھر والوں کیلئے بھی۔

ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ ’’جب ایک ہی مسلمان سے بار بار ملاقات ہو تو ہر مرتبہ اسے سلام کرنا چاہیے اور جس طرح اوّل ملاقات کے وقت سلام کرنا مسنو ن ہے اسی طرح رخصت ہوتے وقت بھی سلام کرنا مسنون اور ثواب کاعمل ہے‘‘ (سنن ابی داؤد: 5177)

یاد رہے کہ چند صورتوں میں ’’سلام‘‘ کرنا اور اس کا جواب دینا سخت منع ہیں:

(01) نماز پڑھتے ہوئے۔ (02) خطبہ دیتے ہوئے۔ (03) قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے۔ (04) اذان دیتے ہوئے۔ (05) اقامت کہتے ہوئے۔ (06) دینی کتابوں کا درس دیتے ہوئے۔ (07) وضو اور استنجاء کرتے ہوئے۔ ان تمام صورتوں میںسلام کرنا یاسلام کا جواب دینا دونوں سخت منع ہیں۔

مفتی محمد وقاص رفیق اسلامک ریسرچ اسکالر "الندوہ" ایجوکیشنل ٹرسٹ اسلام آباد ہیں۔
 

Advertisement