لاہور: (ویب ڈیسک) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک کو غربت سے نجات دلانے کی بجائے سیاسی جماعتیں باہم متصادم ہیں، آئی ایم ایف پروگرام پرعملدرآمد کیلئے ہمیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
معروف برطانوی جریدے اکانومسٹ میں اپنے مضمون میں انہوں نے لکھا کہ بدقسمتی سے ہمارا سیاسی ماحول بری طرح منقسم ہو رہا ہے، ملک کو غربت سے نجات دلانے کی بجائے سیاسی جماعتیں باہم متصادم ہیں، پاکستان 60 کی دہائی میں مثبت سمت میں گامزن تھا، 60 کی دہائی میں پاکستان ایشین ٹائیگر بننے کی تیاری کررہا تھا، 2022 میں ہم خود کو معاشی بحران میں پھنساہوا پارہے ہیں،عالمی برادری اس وقت مشکل دور سے گزر رہی ہے، ایک طرف اشیائے ضروریہ کی بڑھتی قیمتوں کا چیلنج درپیش ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ دوسری طرف امریکا کو تاریخی مالیاتی خسارے جبکہ یورپ کو جنگ کا سامنا ہے، تین نمایاں مسائل کے باعث ہماری ترقی کا سفر رک گیا ہے، ترقی کے اہم عناصرتعلیم، صحت اور بنیادی ڈھانچے پر خاطرخواہ رقم خرچ نہیں کی گئی۔
شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کو غیرذمہ دارانہ بھارتی رویے اور افغان مہاجرین جیسی مشکلات بھی درپیش ہیں، پاکستان کیلئے عالمی سطح پر مواقع میں کمی سے بھی ہماری مشکلات بڑھی ہیں، پاکستانی کمپنیاں مسابقتی فضا میں کام کرنے کی بجائے مقامی سطح تک محدود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم شہباز شریف کی سیلاب متاثرین کو 50 ہزار فی خاندان امداد دینے کی ہدایت
انہوں نے کہا کہ پاکستان کل پیداوار کا 15 فیصد سرمایہ کاری جبکہ 10 فیصد برآمدات پر خرچ کرتا ہے، پاکستان میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم ہے،یہ اعدادو شمار ہمارے معاشی نظام کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
وزیراعظم نے لکھا کہ پاکستان 75 برس کا ہوگیا ہے، اب ہمیں سنجیدگی سے اپنا جائزہ لینا چاہیے، پاکستان دنیا کا 5واں بڑا ملک ہے جہاں ہر 3 میں سے 2 افراد کی عمر30 سال سے کم ہے، پاکستانی شہریوں کی سالانہ فی کس آمدن 1798ڈالرہے، ہماری آبادی کے ہرتیسرے فرد کی یومیہ آمدن 3.20ڈالر سے بھی کم ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کی ایک چوتھائی سے بھی کم خواتین گھرسے باہرکام کرتی ہیں، ہماری آبادی کا ایک تہائی حصہ مکمل ناخواندہ ہے،موجودہ معاشی بحران سے نکلنا ہماری اولین ترجیح ہے،2022 صرف ہمارے لیےنہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے مشکل سال ہے، آئی ایم ایف پروگرام پرعملدرآمد کیلئے ہمیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، عوامی خدمات کے بدلے میں لوگوں کو ٹیکسوں میں اپنا مناسب حصہ ڈالنا ہوگا، یقین ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام پر عملدرآمد ہمارے لئے محفوظ راستہ ہے، درپیش چیلنجز ہمارے لئے مواقع بھی فراہم کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم بنیادی مسائل پر قابو پالیں تو قسمت بدلنے میں کوئی مشکل نہیں، جمہوریت میں ہمیشہ سیاسی اختلافات ہوتے ہیں، اختلافات کے ساتھ کچھ اصولوں پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ ہمیں مالی معاملات ،انسانی وسائل ، میرٹ کی بالادستی اور امن پرمتفقہ لائحہ عمل اپنانا چاہئے، پنجاب سپیڈ کے بعد ہم پاکستان سپیڈکے ساتھ آگے بڑھیں گے،اتحاد اور نظم و ضبط کے ساتھ پاکستان 100ویں سالگرہ پر مختلف ملک ہوگا۔
سعودی اخبار کو انٹرویو
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ مضبوط برادرانہ تعلقات ہیں جس نے دونوں ملکوں کے درمیان کثیرجہتی تعاون جدید خطوط پر استوار کرنے کا موقع دیا ہے۔
سعودی عرب کے اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کے تجدد پذیر اقتصادی منظرنامے اور سعودی وژن 2030 نے اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی تعاون کے نئے مواقع فراہم کیے ہیں۔ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی، کھیتی باڑی، فوڈ سیکیورٹی، ماحولیات، تجدد پذیر توانائی، دفاع، سیاحت، کارکنان کے روزگار اور ٹریننگ پر مشتمل ہیں۔
پاکستان کے 75 ویں یوم آزادی کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے اقتصادی اصلاحات کو اپنے ملک کی ترجیحات میں سرفہرست رکھتے ہوئے کہا کہ معیشت ہی وہ بڑا چیلنج ہے جس کا اس وقت ہمیں سامنا ہے۔ مخلوط حکومت نے اقتصادی استحکام کو ایجنڈے پر سرفہرست رکھا ہے۔ اقتصادی کفایت شعاری کے لیے اصلاحات کا پروگرام نافذ کرنے جارہے ہیں۔
شہباز شریف نے مقبوضہ کشمیر پر سنجیدہ گفتگو کے آغاز کو بھارت کی جانب سے کشمیریوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک اورغیر قانونی اقدامات بند کرنے سے مربوط کیا۔ مقبوضہ کشمیر ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی تنازع ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہش کے مطابق اس کے حتمی حل تک یہی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا سرفہرست مسئلہ رہے گا۔
عالمی معیشت اور فوڈ سیکیورٹی پر یوکرین کی جنگ کے منفی اثرات کا تذکرہ کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ خوراک اور ایندھن کے مہنگے نرخوں کے پریشان کن اثرات دنیا بھر میں محسوس کیے جارہے ہیں۔ ان میں ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو کئی عشروں سے انتہائی افراط زر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مہنگائی کے اثرات بہت زیادہ واضح ہیں۔ خاص طور پر موجودہ اقتصادی چیلنجوں کی روشنی میں اس کے اثرات نمایاں ہیں۔