تہران: (ویب ڈیسک) وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ پاکستان کو گیس اور بجلی کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور ایران، آسانی سے ہماری ضروریات کو پورا کرسکتا ہے۔ چین دنیا کی سب سے بڑی منڈی ہے اور اسے توانائی کی ضرورت ہے اور ایران جو کہ دنیا کے توانائی کے سب سے بڑے برآمد کنندگان میں سے ایک ہے پاکستان کے ذریعے چین کی توانائی کی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔
ایرانی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعلقات بڑھانے کی بے پناہ صلاحیتیں ہیں اور پاکستان کی موجودہ حکومت اس مقصد کے حصول کیلئے سنجیدہ عزم رکھتی ہے۔
انہوں نے پچھلے دو ہفتوں کے دوران، پاکستان کیجانب سے ایران سے مشترکہ تجارتی حجم کو کم عرصے میں 500 ملین ڈالر یا 500 ملین یورو تک بڑھانے کی تجویز کی یاد دہانی کراتے ہوئے کہا کہ پاکستان اسٹیٹ بینک کے سربراہ، اس منصوبے کی پیروی کرنے کے ذمہ دار ہیں تا کہ وہ اپنے ایرانی ہم منصب سے مشترکہ تجارتی حجم کو بڑھانے کیلئے آسان اور تعمیری منصوبوں کو بروئے کار لائیں۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان تجارتی لین دین کے امکانات بہت زیادہ ہیں اور ہم نے گزشتہ حکومت میں قومی کرنسیوں کے ذریعے باہمی تجارتی حجم کو بڑھانے کی تجویز دی تھی اور اس حوالے سے میں نے سٹیٹ بینک سے مطالبہ کیا ہے وہ منصوبے کے نفاذ کیلئے جلد از جلد ایرانی ہم منصب سے بات چیت کریں۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں ایران اور پاکستان کے درمیان تجارت کو آسان بنانے کیلئے سفری راستوں میں اضافہ کرنا ہوگا، صوبے بلوچستان میں مسافروں کیلئے مزید سہولیات کی فراہمی کرنی ہوگی کیونکہ عوام کے درمیان تعاون بلاشبہ دو ہمسایہ ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو مزید آسان بنائے گا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کو گیس اور بجلی کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور ایران، آسانی سے ہماری ضروریات کو پورا کرسکتا ہے۔ ایران اور پاکستان کے درمیان بڑے اچھے اور مضبوط تعلقات ہیں لیکن بڑی افسوس کی بات ہے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کی سطح، ثقافتی، سیاسی اور مذہبی تعلقات کی سطح کے مقابلے میں قابل قبول پوزیشن میں نہیں ہے۔ حکومت نے ایک بڑا قدم اٹھایا ہے کہ ہم نے ایران سے بجلی کی درآمد میں اضافہ کیا ہے۔ ہمارے وزیر خرم دستگیر نے ایران سے بجلی کی درآمدات بڑھانے کے لیے ایران کا سفر کیا جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ گیس پائپ لائن منصوبہ کافی مشکل ہے کیونکہ اس پر دستخط ہونے کے فوراً بعد پابندیاں لگ گئیں۔ اگرچہ 2015 میں ایران اور P5+1 کے درمیان جوہری معاہدے کے بعد پابندیاں ہٹا دی گئی تھیں لیکن امریکا نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے الگ ہو کر ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دیں۔ ہمارے وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک گیس درآمد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں ایرانی آپشن ابھی تک زیر غور ہے۔
مفتاح حسین نے کہا کہ ایران بہت ساری مصنوعات کی تیاری کرتا ہے اور پاکستان ان سے اپنی ضروریات کو پورا کرتا ہے اور اس کے مقابلے میں ہم بھی بعض مصنوعات کو ایران میں برآمد کرتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ سرحدوں کے باوجود جن کے ذریعے ہم بارٹر سسٹم میکنزم سے اور قومی کرنسی سے تجارتی لین دین کر سکتے ہیں، تاہم باہمی تجارتی لین دین کا حجم بہت کم ہے۔ مشترکہ اقتصادی کمیشن کے اجلاس کے اصل ایجنڈوں میں سے ایک باہمی تجارتی تعلقات کا فروغ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بینکنک چینل کی عدم موجودگی اور کرنسی کا تبادلہ، تجارتی لین دین کی راہ میں حال بڑی رکاوٹیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ ہماری تجارت اس کی حقیقی صلاحیت کے مطابق نہیں ہے اور اسے ہر دو سال بعد دوگنا کیا جانا ہوگا۔ اگر ایران اور پاکستان بینکنگ چینل اور ادائیگی کا نظام شروع کر سکیں تو اگلے دو سالوں میں ان کی تجارت دوگنی ہو جائے گی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ چین دنیا کی سب سے بڑی منڈی ہے اور اسے توانائی کی ضرورت ہے اور ایران جو کہ دنیا کے توانائی کے سب سے بڑے برآمد کنندگان میں سے ایک ہے پاکستان کے ذریعے چین کی توانائی کی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔ سمجھتے ہیں ایران کو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کا حصہ بننا چاہیے۔ ہم چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت توانائی کے کسی بھی دوسرے منصوبوں پر گوادر میں ایرانی سرمایہ کاری کا خیرمقدم کرتے ہیں۔