توہین عدالت کیس، عمران خان کو 7 دن میں دوبارہ جواب جمع کروانے کا حکم

Published On 31 August,2022 08:48 am

اسلام آباد: (دنیا نیوز) توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو 7 دن میں دوبارہ تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے توہین عدالت کیس کی سماعت کی، چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو ذاتی حیثیت میں طلب کر رکھا تھا۔

عمران خان کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دئیے کہ آپ عمران خان کے وکیل کے ساتھ اس کورٹ کے معاون بھی ہیں، آپ نے جو تحریری جواب جمع کرایا اس کی توقع نہیں تھی، یہ کورٹ توقع کرتی تھی آپ ادھر آنے سے پہلے عدلیہ کا اعتماد بڑھائیں گے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کو قانون اور آئین کی حکمرانی پر یقین رکھنا چاہیے، تحریری جواب سے مجھے ذاتی طور پر دکھ ہوا، ماتحت عدلیہ جن حالات میں کام کررہی ہے سب کے سامنے ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے مزید کہا کہ عمران خان کی کافی فین فالوونگ ہے، عمران خان کے پائے کے لیڈر کو ہر لفظ سوچ سمجھ کر ادا کرنا چاہیے، میں توقع کر رہا تھا کہ احساس ہوگا کہ غلطی ہوگئی، جس طرح گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا اسی طرح زبان سے نکلی بات بھی واپس نہیں جاتی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کو جوبھی لکھ کر دینا ہے سوچ سمجھ کر لکھیں، آپ اس معاملے کی سنگینی کا بھی اندازہ لگائیں۔

دوران سماعت جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت کی کارروائی آج ختم ہوسکتی تھی مگر اس جواب کے باعث ایسا نہیں ہوا، آپ کو جواب داخل کرانے کا ایک اور موقع دیا گیا ہے، آپ اس پر سوچیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت ساری کارروائی کو شفاف انداز میں آگے بڑھائے گی، یہ کوئی پہلی بار نہیں، حامد خان صاحب، دانیال عزیز، نہال ہاشمی اور طلال چودھری کیس پڑھیں، یہ عدالت سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف نہیں جاسکتی، آپ معاملے کی سنگینی کوسمجھیں اور سوچ سمجھ کرجواب دیں۔

بعدازاں عدالت نے عمران خان کو 7 دن میں دوبارہ تحریری جواب دینے کا حکم دیا اور چیف جسٹس نے کہا کہ 7 دن میں سوچ سمجھ کرجواب داخل کریں اور کیس کی مزید سماعت 8 ستمبر تک ملتوی کردی۔

قبل ازیں عمران خان کی عدالت پیشی کے موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے اور وکلا کے سوا کسی بھی شخص کو کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
 

Advertisement