اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کا بوجھ برابری کی بنیاد پر نہیں منصفانہ طور پر تقسیم ہونا چاہئے، یہ موسمیاتی انصاف کا معاملہ ہے، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سب سے زیادہ کمزور طبقے پر پڑتے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ناروے کے وزیراعظم جوناس گہرسٹور کے ہمراہ موسمیاتی تبدیلی اور کمزور کمیونٹیز کے استحکام کے موضوع پر کانفرنس کی مشترکہ صدارت کرتے ہوئے کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی اس دہائی کا اہم بحران ہے اور ہم اس کے خلاف اپنی اجتماعی لڑائی کے تاریخی لمحے میں ہیں۔ ہمارے پاس خاص طور پر ایسے ممالک اور کمیونٹیز جو انتہائی خطرے سے دوچار ہیں، کیلئے کوئی دوسرا کرہ ء ارض نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب یہ ایک مسلمہ سائنسی حقیقت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ ہماری منصوبہ بندی سے کہیں زیادہ تیزی سے ہو رہی ہے، یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ترقی پذیر یا کم ترقی یافتہ ممالک اور کمیونٹیز جو فرنٹ لائن پر ہیں، کو مدد کی ضرورت ہے۔ بہت سے ممالک بالخصوص افریقی ممالک جنہیں تباہ کن خشک سالی کا سامنا رہا ہے، کمزور اقوام کے گروپ میں آتے ہیں، پھر بھی ہماری طرح کم اخراج والے ممالک زندگی اور معاش کے حوالے سے بدلتے ہوئے خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ میرا اپنا ملک بھی اس صورتحال سے گذر رہا ہے اور اس وقت بھی اسی طرح کی کیفیت کا ہمیں سامنا ہے، پاکستان میں تباہ کن سیلاب نے تیزی سے ہمارے ذہنوں کو اس بات پر مرکوز کر دیا ہے کہ اس طرح کی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سب سے زیادہ کمزور طبقے پر پڑتے ہیں۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، موسمیاتی تبدیلی اور تنازعات خواتین اور بچوں کے ساتھ ساتھ غریب ترین افراد کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ 33 ملین افراد میں سے نصف سے زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے جن میں سے 6 لاکھ 50 ہزار حاملہ خواتین کھلے آسمان تلے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے کسان اور مال مویشی پالنے والوں کا آن کی آنکھوں کے سامنے ان کا معاش تباہ ہو گیا۔ 4410 ملین ایکڑ زرعی زمین کو نقصان پہنچا ہے، سندھ میں کپاس کی پوری کی پوری فصل ختم ہو گئی ہے۔ تقریباً 40 لاکھ بچوں کو صحت کی سہولیات تک رسائی نہیں ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ زیادہ تر موسمیاتی آفات بالخصوص سیلاب اور اس کے بعد صحت جیسے مسائل جنم لیتے ہیں جن میں جسمانی اور ذہنی صحت دونوں شامل ہیں۔ متاثرہ علاقوں کے دورہ کے دوران کیمپوں میں مشکلات کے شکار افراد کو دیکھا ہے اور ایک ہفتہ پہلے تک 82 لاکھ افراد کو صحت کی خدمات کی فوری ضرورت تھی۔ میں سمجھتا ہوں اس طرح کی صحت کی ہنگامی صورتحال اس براعظم میں بھی عام ہے اور یہاں سب کو یہ یاد دلانا ضروری ہے یہ شدید موسم، بشمول خشک سالی کی وجہ سے بڑھتے ہیں اور یہ نیا معمول نہیں بننا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ انسانیت موسمیاتی تبدیلی کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے، قابل قبول موسمیاتی تبدیلی کی حد پہلے ہی عبور ہو چکی ہے، پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ یقیناً پاکستان میں نہیں رہے گا اور اس کا ثبوت نائجیریا اور جنوبی سوڈان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حالیہ اثرات سے ظاہر ہوتا ہے۔ عالمگیر سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے لئے بلاشبہ اجتماعی نقطہ نظر کی ضرورت ہوگی تاکہ سب سے زیادہ کمزور طبقہ کی مدد کی جا سکے۔
وزیراعظم نے کہا کہ عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ اگر ہم نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے اب اقدامات نہ کئے تو 2050 ء تک 216 ملین افراد بے گھر ہو جائیں گے جن کی زیادہ تر تعداد افریقہ اور جنوبی ایشیاء میں ہوگی جن میں 40 ملین افراد جنوبی ایشیائ، 85.7 ملین سبز سہارا افریقہ اور 49 ملین افراد کا تعلق مشرقی ایشیاء اور بحرالکاہل سے ہوگا۔ پچھلی دو دہائیوں کے دوران جنوبی ایشیاء میں 750 ملین افراد موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی تباہی سے متاثر ہوئے ہیں۔ 2030ء تک موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک میں 100 ملین افراد خط غربت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ہم نے 20 ہفتوں میں 26 لاکھ سے زائد افراد کو 300 ملین ڈالر کی منتقلی کے ذریعے ان کی پہلی ضروریات پوری کرنے کے لئے اقدامات کئے ہیں۔ پاکستان میں حالیہ سیلاب نے10 ملین شہریوں کو بے گھر کیا جو اپنے ہی ملک میں موسمیاتی پناہ گزینوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ ایسے لوگوں اور کمیونٹیز کو بہت سے شعبوں میں بہتر تیاری اور بہت زیادہ موافقت کی ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ پسماندہ، معذور، غریب اور سماجی طور پر کمزور افراد کی زندگیوں پر موسمیاتی تبدیلی کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس پہلے سے ہی دنیا کے سب سے موثر سماجی تحفظ کے پروگراموں میں سے ایک کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے جس کا نام بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) ہے۔ اس پروگرام کو متاثرہ آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے فوری طور پر استعمال کیا گیا۔ اس پروگرام کو مختلف عطیہ دہندگان کے ذریعے سپورٹ کیا جا سکتا ہے اور اسی طرح کے سماجی تحفظ کے پروگرام کو دوسرے ممالک بھی کمزور طبقات کی سماجی تحفظ کے لئے اپنا سکتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں بہت زیادہ تعداد میں گلیشیئرز موجود ہیں اور برف پگھلنے کی اوسطاً شرح تین گنا ہے۔ حکومت پاکستان نے 2018 ء میں کل پروٹیکٹڈ ایریاز کو 12 فیصد سے بڑھا کر 2023 ء تک 15 فیصد کرنے کے مقصد کے ساتھ ”محفوظ علاقوں کے اقدام” کا آغاز کیا اور یہ ہدف حاصل کیا گیا۔ ہمارا سب سے بڑا موافقت کا پروگرام ”لیونگ انڈس انیشی ایٹو” انتہائی اہمیت رکھتا ہے، یہ اقدام25 علاقوں میں شروع ہوگا تاکہ کمیونٹیز کو سیلاب کے انتظام اور دریا کو آلودہ ہونے سے بچایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں متاثرہ روزگار اور آمدن موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے بنیادی ڈھانچے، موسمیاتی تبدیلی کے خطرے اور وارننگ سسٹمز کے لئے وسائل خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات سے بحالی کے لئے کلائمیٹ فنانس کی ضرورت ہے۔ COP27 ترقی پذیر ممالک میں صلاحیت میں اضافے، طویل مدتی کلائمیٹ فنانسنگ کو آسان بنانے کے لئے موافقت فنڈ کی فراہمی کا موقع ہے۔
یہ ایک بہت بڑا کام ہے، ہم پرعزم لوگ ہیں لیکن اکیلے یہ کام نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کانفرنس انسانیت کے حوالے سے ایک اہم موقع پر ہو رہی ہے۔ ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا مسئلہ فوری حل کرنے کی ضرورت ہے، موسمیاتی تبدیلی کا بوجھ برابری کی بنیاد پر نہیں منصفانہ طور پر تقسیم ہونا چاہئے۔ یہ موسمیاتی انصاف کا معاملہ ہے، ہمیں چاہئے کہ اس موقع کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کی سب سے کمزور اقوام کے مستقبل کو محفوظ بنائیں۔