اسلام آباد: (دنیا نیوز) پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی، 5 رکنی بینچ میں شامل معزز ججز نے دلائل سنے۔
اس سے قبل 9 رکنی بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے کیس سننے سے معذرت کرتے ہوئے خود کو الگ کر لیا تھا، اب چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال مندوخیل، اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل 5 رکنی بینچ سماعت کرے گا۔
بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، گورنر اسمبلی تحلیل کرتا ہے تو تاریخ بھی گورنر دے گا، چیف جسٹس نے کہا دوسری صورت ہوگی تو الیکشن کمیشن ایکٹ کرے گا، علی ظفر نے کہا گورنر تاریخ نہ دے تو سیکشن 57 کے تحت صدر مملکت تاریخ دے گا، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گورنر تاریخ دیتے وقت صرف تاریخ دے یا اس پر کوئی غور و فکر کر سکتا ہے؟۔
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا الیکشن کمیشن راضی تو ہو لیکن وسائل نہ ہوں تو پھر کیا ہوگا؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا اس کا مطلب یہ نہیں کہ 10 سال الیکشن نہ ہوں، گورنر کہتے ہیں ملک میں حالات ٹھیک نہیں امن اور امان کا مسئلہ ہے، جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا خدا کیلئے ملک بھر میں کرکٹ ہوسکتی ہے تو انتخابات کیوں نہیں؟۔
جسٹس محمد علی مظہر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ انتخابات ہونا یا نا ہونا تو بعد کی بات ہے تاریخ تو پہلے دے دیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا انتخابات کی تاریخ کون دے گا یہ ہمارے لیے اہم ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ابھی تو رشتہ ہونا ہے پھر تاریخ آئے گی، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اسمبلیاں نہ ہوں تو آئین میں گورننس کا کوئی اور طریقہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ انتخابات کیلئے 90 دن کی حد مقرر کی گئی ہے، 90 دن میں الیکشن کا ہونا ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب، کے پی میں انتخابات کیلئے از خود نوٹس: سپریم کورٹ کا لارجر بینچ ٹوٹ گیا
بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل میں مزید کہا ہے کہ صرف اعلان نہیں، الیکشن کمیشن کی ذمہ داری انتخابات کیلئے انتظامات کرنا اور الیکشن کرانا ہے، آئین کے مطابق الیکشن کمیشن نے قومی، صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی انتخابات کرانے ہیں، آرٹیکل 218، 219 اور 222 الیکشن کمیشن کو انتخابات کی ذمہ داری دیتے ہیں، تمام ایگزیکٹو ادارے انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کی معاونت کے پابند ہیں، الیکشن کمیشن بے بسی ظاہر کرے تو عدالت کو ایکشن لینا چاہیے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ الیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے؟ علی ظفر نے جواب دیا الیکشن کی تاریخ کے تعین کا سوال ہی عدالت کے سامنے ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سمری آنے پر اسمبلی تحلیل کا حکم جاری کرنا گورنر کی ذمہ داری ہے، گورنر اپنے حکم میں انتخابات کی تاریخ بھی دے گا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا گورنر تاریخ نہ دے تو الیکشن کمیشن ازخود انتخابات کرا سکتا ہے؟۔
جس پر علی ظفر نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے اسے ہی اختیار ہونا چاہیے، جسٹس منیب اختر نے کہا آئین کو بالکل واضح ہونا چاہیے جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں واضح لکھا ہے کہ صدر بھی تاریخ دے سکتے ہیں، پارلیمان کی بصیرت کا کیسے جائزہ لیا جا سکتا ہے؟، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے گورنرز کو تاریخیں تجویز کر رکھی ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کو ہر وقت انتخابات کیلئے تیار رہنا چاہیے، کوئی بھی اسمبلی کسی بھی وقت تحلیل ہوسکتی ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کیسے ہو سکتا ہے کہ اس بنیاد پر انتخابات نہ ہوں کہ پیسے ہی نہیں ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا یہ عجیب نہیں ہے کہ صدر مشاورت سے تاریخ دیتا ہے اور گورنر اپنی مرضی سے؟، جس پر چیف جسٹس نے کہا گورنر کسی سے تو مشاورت کرتا ہی ہوگا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اگر گورنر ایک ہفتے میں الیکشن کا اعلان کر دے تو الیکشن کمیشن کیا کرے گا؟ انتخابات کا سارا کام تو الیکشن کمیشن نے کرنا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ انتخابات کیلئے پورا شیڈول دیا گیا ہے کہ کس مرحلے کیلئے کتنا وقت درکار ہوگا، جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اگر زلزلہ، سیلاب ہے تو تاریخ پر الیکشن ہو نہیں سکتے پھر کیا ہوگا؟ جنگ ہے، کرفیو لگ گیا، ایمرجنسی کی صورتحال ہے تو کیا ہو گا؟۔
جس پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ جنگ اور سیلاب میں ہی الیکشن رک سکتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی ہائیکورٹ سے سٹاف مانگا تو انکار کر دیا گیا، فنڈز مانگنا، یہ سب انتخابات کے انتظامی جزو ہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا اگر گورنر تاریخ نہیں دیتا تو صدر کتنے دن میں تاریخ دے سکتا ہے؟ اگر کوئی آئینی ذمہ داری پوری نہیں ہو رہی تو عدالت جایا جا سکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا میرے خیال میں گورنر اسمبلی توڑے یا نہ توڑے، اسمبلی ٹوٹنے کا اعلان کرتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا سال 1976 میں آئین خاموش تھا کہ الیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے، اسمبلی نے ترمیم کر کے صدر اور گورنر کو تاریخ دینے کا اختیار دیا، پنجاب کی حد تک صدر نے شاید تاریخ درست دی ہو، آئین میں گورنر کو اسمبلی توڑنے کا نہیں کہا گیا، 48 گھنٹے بعد اسمبلی ٹوٹنے کا کہا گیا ہے ، اسمبلیاں ختم ہو جائیں تو گورنر کا کیا کردار ہوگا، جس پر علی ظفر نے جواب دیا اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے میں گورنر کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا گورنر اسمبلی توڑے گا تو تاریخ دے گا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اگر گورنر اسمبلی توڑنے سے انکار نہیں کر سکتا تو ان کا تو اختیار نہیں، بظاہر دو صورتحال ہیں ، ایک میں گورنر اسمبلی تحلیل کر رہا ہے، دوسری میں نہیں، جسٹس جمال نے پھر استفسار کیا کہ اگر گورنر سمری واپس بھیجے تو 48 گھنٹے کا وقت کہاں سے شروع ہو گا؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا میری نظر میں گورنر اسمبلی تحلیل کی سمری واپس نہیں بھیج سکتا۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران حکومت کیلئے گورنر کو کسی سمری کی ضرورت نہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ گورنر کا کردار پارلیمانی جمہوریت میں پوسٹ آفس کا ہی ہے، کیا گورنر اپنی صوابدید پر اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گورنر کی صوابدید ہے کہ وہ کوئی سمری منظور کرے یا واپس بھیج دے، اسمبلی تحلیل پر گورنر کا کوئی صوابدیدی اختیار نہیں، گورنر اگر سمری منظور نہ کرے تو اسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا گورنر کی صوابدید یہ نہیں کہ اسمبلی تحلیل ہو گی یا نہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا گورنر سمری واپس بھیجے تو بھی 48 گھنٹے کا وقت جاری رہے گا، جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اسمبلی تحلیل کرنے کا نوٹیفکیشن کون جاری کرتا ہے؟ جس پر علی ظفر نے کہا اسمبلی تحلیل کرنے کا نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن نے جاری کیا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کیا الیکشن کمیشن اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن جاری کر سکتا ہے؟۔
جسٹس منیب اختر نے کہا نوٹیفکیشن کے مطابق 48 گھنٹے گزرنے کے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہوئی، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ریکارڈ کے مطابق نوٹیفکیشن حکومت نے جاری کیا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا نوٹیفکیشن سے پہلے کسی نے تو حکم جاری کیا ہی ہوگا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کا اختلافی نوٹ
جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ غلام ڈوگر کیس سے متعلق آڈیو سنجیدہ معاملہ ہے، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی الیکشن سے متعلق پہلے ہی اپنا ذہن واضح کر چکے ہیں، دونوں ججز کا موقف ہے کہ انتخابات 90 روز میں ہونے چاہیئں، دونوں ججز نے رائے دیتے وقت آرٹیکل 10 اے پر غور نہیں کیا، ان حالات میں چیف جسٹس کا از خود نوٹس لینے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
جسٹس اطہر من اللہ کا اختلافی نوٹ
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ چیف جسٹس کا اوپن کورٹ میں دیا گیا آرڈر تحریری حکم نامے سے مطابقت نہیں رکھتا، ہمارے سامنے رکھے گئے سوال کو علیحدہ نہیں دیکھا جا سکتا، صوبائی اسمبلیاں توڑنے کی آئینی اور قانونی حیثیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیا صوبائی اسمبلیاں جمہوریت کے آئینی اصولوں کو روند کر توڑی گئیں؟، اسمبلیاں توڑنے کی قانونی حیثیت پر سوالات بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سے متعلق ہیں، ہمارے سامنے آنے والا معاملہ پہلے ہی صوبائی آئینی عدالت کے سامنے موجود ہے، اس معاملے کا سپریم کورٹ آنا ابھی قبل از وقت ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے مزید لکھا کہ کسی اور معاملے کو دیکھنے سے پہلے اسمبلیاں توڑنے کی آئینی و قانونی حیثیت دیکھنا ناگزیر ہے، چیف جسٹس نے مجھ سے اس معاملے پر سوالات مانگے ہیں، کیا صوبائی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دینا وزیر اعلیٰ کا حتمی اختیار ہے جس کی آئینی وجوہات کو دیکھنا ضروری نہیں؟، کیا وزیر اعلیٰ اپنی آزادانہ رائے پر اسمبلی توڑ سکتا ہے یا کسی کی رائے پر؟ کیا کسی بنیاد پر وزیراعلیٰ کی ایڈوائس کو آئینی طور پر مسترد کیا جا سکتا ہے اور اسمبلی بحال کی جاسکتی ہے۔