لاہور: (اللہ ڈتہ انجم) یہ حقیقت ہے کہ جب مزدوروں سے 16،16گھنٹے جانوروں کی طرح کام لیا جائے۔ تنخواہ یا اُجرت برائے نام دی جائے اوور ٹائم کا تصور نہ ہو، دوران ڈیوٹی اگر مر جائے تو اس کا ذمہ دار بھی خود مزدور ہو۔ اس کے تمام اخراجات بھی مزدور کے ہی ذمہ ہوں۔ زخمی ہونے والے مزدور کے علاج کیلئے بھی مِل یا فیکٹری وغیرہ کی طرف سے سہولت کا کوئی قانون نہ ہو۔ مزدور کی ملازمت کا فیصلہ بھی مالک کے رحم و کرم پر ہو۔ چھٹی کا کوئی تصور نہ ہو۔ چھوٹی چھوٹی وجہ پر جھڑکیں اور تشدد مزدور کا نصیب سمجھے جائیں۔ تو ایسے میں کب تک کوئی برداشت کرے گا۔ کہیں نہ کہیں سے تو اس ظلم کے خلاف آواز اُٹھے گی۔ بلکہ ظلم کے خلاف آواز کو بلند ہونا چاہیئے کیوں کہ ظلم سہنا بھی ظالم کی حمایت کرنا ہے۔
ایسے ہی ظلم کے خلاف مزدوروں کی ایک آواز یکم مئی 1886ء میں امریکہ کے صنعتی شہر شکاگو میں گونجی، جو بعدازاں ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔ 16،16 گھنٹے کام کرنے والے مزدوروں میں ’’8 گھنٹے کام کا نعرہ بہت مقبول ہوا‘‘۔ یہ آواز ایک روائتی آواز نہ تھی بلکہ یہ 1200 فیکٹریوں کے ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ مزدوروں کی آواز تھی۔ جس نے پوری سامراجی طاقتوں اور سرمایہ داروں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ہڑتال سے نپٹنے کیلئے جدید اسلحہ سے لیس پولیس کی تعداد شہر میں بڑھا دی گئی۔
یہ اسلحہ اور دیگر سامان پولیس کو مقامی سرمایہ داروں نے مہیا کیا تھا۔ پہلے روز ہڑتال بہت کامیاب رہی دوسرے دن یعنی 2 مئی کو بھی ہڑتال بہت کامیاب اور پُر امن رہی۔ تیسرے دن ایک فیکٹری کے اندر پولیس نے پُر امن اور نہتے مزدوروں پر فائرنگ کر دی۔ جس کی وجہ سے چار مزدور ہلاک اور بہت سے زخمی ہو گئے۔ اس واقعہ کے خلاف تحریک کے منتظمین نے اگلے ہی روز 4 مئی کو ایک بڑے احتجاجی جلسے کا اعلان کیا۔
اگلے روز جلسہ پُر امن جاری تھا لیکن آخری مقرر کے خطاب کے دوران پولیس نے اچانک فائرنگ کر کے بہت سے مزدور ہلاک اور زخمی کر دیئے۔ پولیس نے یہ الزام لگایا کہ مظاہرین میں سے ان پر گرینیڈ سے حملہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ایک پولیس اہلکار ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے ہیں۔
اس حملے کو بہانہ بناکر پولیس نے گھر گھر چھاپے مار ے اور بائیں بازو اور مزدور رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔ ایک جعلی مقدمے میں آ ٹھ مزدور رہنماؤں کو سزائے موت سُنا دی گئی۔ جن میںالبرٹ پار سن، آ گسٹ سپائز، ایڈولف فشر اور جارج اینجل کو 11 نومبر 1887ء کو پھانسی دی گئی۔ لوئیس لنگ نے جیل میں خودکشی کر لی اور باقی تینوں کو 1893ء میں معافی دے کر رہا کر دیا گیا۔
مئی کی اس مزدور تحریک نے آ نے والے دنوں میں طبقاتی جدوجہد کے متعلق شعور میں انتہائی اضافہ کیا۔ ایک نوجوان لڑکی ایما گولڈ نے کہا کہ مئی1886ء کے واقعات کے بعد میں محسوس کرتی ہوں کہ میرے سیاسی شعور کی پیدائش اس واقعہ کے بعد ہو ئی ہے۔ البرٹ پارسن کی بیوہ لوسی پارسن نے کہاکہ دنیا کے غریبوں کو چاہئے کہ اپنی نفرت کو ان طبقوں کی طرف موڑ دیں جو ان کی غربت کے ذمہ دار ہیں یعنی سرمایہ دار طبقہ۔
جب مزدوروں پر فائرنگ ہو رہی تھی تو ایک مزدور نے اپنا سفید جھنڈا ایک زخمی مزدور کے خون میں سرخ کر کے ہوا میں لہرا دیا۔ اس کے بعد مزدور تحریک کا جھنڈا ہمیشہ سرخ رہا۔ 1889ء میں ریمنڈ لیوین کی تجویز پر 1890ء میں یکم مئی کو ’’یوم مزدور‘‘ کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا۔ اس کے بعد یہ دن ’’عالمی یوم مزدور‘‘ کے طور پر منایا جانے لگا سوائے امریکہ، کینیڈا اور جنوبی افریقہ کے۔ جنوبی افریقہ میں غالباً نسل پرست حکومت کے خاتمے کے بعد یوم مئی وہاں بھی منایا جانے لگا۔
مزدور اور دیگر استحصال زدہ طبقات کی حکومت لینن کی سربراہی میں اکتوبر انقلاب کے بعد سوویت یونین میں قائم ہوئی۔ اس کے بعد مزدور طبقے کی عالمی تحریک بڑی تیزی سے پھیلی اور چالیس پچاس سالوں میں دنیا کی تقریباً نصف آبادی پر مزدور طبقے کا انقلابی سرخ پرچم لہرانے لگا۔
یکم مئی 1972ء کو پاکستان کی حکومت نے پہلی مرتبہ باضابطہ طور پر سرکاری سطح پر یکم مئی کو محنت کشوں کا دن قرار دیا۔ تب سے اب تک ہر سال یکم مئی کو ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے اور پاکستان کے تمام محنت کش دنیا بھر کے محنت کشوں سے مل کر اپنے ان ساتھیوں کی یاد تازہ کرتے ہیں۔
اس روز دنیا بھر کے محنت کش شکاگو کے شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کیلئے جلسے، جلوس، ریلیاں، سیمینارز وغیرہ منعقد کر کے اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ جب تک دنیا سے استحصالی نظام کا خاتمہ نہیں ہو جاتا ہماری جدوجہد جاری و ساری رہے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ محنت کشوں نے بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے تحت محنت کشوں کو درپیش مسائل کے تدارک کیلئے کوششیں کی جاتی ہیں مگر 1886ء سے آج تک مزدور اور سرمایہ دار طبقے کی جنگ جار ی ہے۔
یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ دنیا بھر میں آج بھی مزدورانتہائی نامساعد حالات کا شکار ہیں اور دن بدن مزدوروں کی حالت خراب ہوتی جا رہی ہے۔ اب بھی کام کی جگہ پر حفاظتی آلات نہ ہونے کی بنا پر لاکھوں مزدور مر جاتے ہیں۔ لاکھوں کارکن مختلف جگہوں پر کام کی نوعیت کی وجہ سے بیمار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جبکہ زرعی شعبے سے منسلک محنت کشوں پر تو قوانینِ محنت کا اطلاق ہی نہیں ہوتا۔
اگر دینِ اسلام پر نظر ڈالیں تو آقائے دوجہاں حضرت محمد ﷺ نے مزدور کی سلامتی کے تمام تقاضے پورے کئے۔ اسلام میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دی جائے۔ اسلامی ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں محنت کشوں کے حقوق استحصالی طبقے کے ہاتھوں پامال ہو رہے ہیں۔
پاکستانی محنت کش کمر توڑ مہنگائی، کم اُجرت، تیل، بجلی، گیس وغیرہ جیسی روزِ مرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، تعلیم و صحت کی ابتر صورتحال وغیرہ کا شکار ہے۔ دہشت گردی اور امن کی ناقص صورت حال نے زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے۔ مزدوری کیلئے اپنے ہی ملک میں کسی جگہ جانے والے مزدوروں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ چند سال قبل بلوچستان میں مزدوری کرنے والے سرائیکی مزدوروں کو پنجابی شناخت کر کے فائرنگ کرتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔
انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں آمروں، سرمایہ داروں اور جاگیر داروں نے پاکستانیوں کو تقسیم در تقسیم کیا ہوا ہے۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے امیر کو امیر اور غریب کو غریب تر بنا دیا ہے۔ چائلڈ لیبر پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ ہمارے ملک کے بچے بچے کو مقروض کیا جا رہا ہے۔ افسوس کہ ملکی معیشت کو مستحکم کرنے والے مزدوروں کو دیگر بنیادی سہولیات تو دور کی بات ہے انہیں تو پینے کا صاف پانی تک نہیں مل سکا۔ ان حالات میں یکم مئی کا دن مزدوروں کیلئے ہوا کے تازہ جھونکے اور مایوسی کے اندھیروں میں سحر کی نوید ہے۔ یکم مئی ایک دن نہیں بلکہ ایک جدوجہد، تحریک اور نظریئے کا نام ہے ۔
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
اللہ ڈتہ انجم لکھنے سے گہرا شغف رکھتے ہیں، سماجی ، ثقافتی اور علمی موضوعات پہ خامہ فرسائی کرتے ہیں، دھنوٹ ضلع لودھراں سے تعلق ہے۔