مزدوروں کی تحریک: تاریخی تسلسل

Published On 01 May,2023 09:00 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) یکم مئی 1886ء کو شکاگو میں پیش آنے ہونے والا تاریخ ساز واقعہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ ہزاروں سال پر پھیلے ہوئے مختلف مراحل کا ایک اہم موڑ بلکہ نشان منزل تھا۔

بالفاظ دیگر مزدوروں کی یہ تحریک کوئی وقتی ابال، خود رو مقامی جدوجہد اور حادثاتی ابھار نہیں تھی بلکہ اس تحریک کا ایک تاریخی تسلسل تھا جس کے تانے بانے دنیا کی پوری مزدور تحریک سے بُنے اور جڑے ہوئے تھے اور اس کی پشت پر مزدوروں کا بے پایاں گہرا شعور تھا جو اپنی طبقاتی جدوجہد کی حدوں کو چھونے لگ گیا تھا۔

یوم مئی کی تحریک دراصل ایک تاریخی تسلسل کا اہم موڑ تھی، یعنی طبقاتی کشمکش اور جدوجہد کی معرکہ آرائی کا ایک اہم مرحلہ، کیونکہ کمیونسٹ مینی فسٹو کے مطابق سارے سماج کی تاریخ، جو اس وقت تک قائم ہے، طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے۔ آزادی اور غلامی، پیٹرسی اور پلیب، جاگیردار اور زرعی غلام، گلڈ استاد اور کاریگر، مختصر یہ کہ چیرہ دست اور زیردست ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو کر کبھی چھپی، کبھی کھلی ایک بے روک لڑائی لڑتے رہے۔ ایک لڑائی جو ہر بار یا تو پورے سماج کی ایک انقلابی تعمیر پر ختم ہوئی یا لڑنے والے طبقوں کی مشترکہ تباہی پر۔

یورپ کے اشتراکیت پسندوں کی مختلف بین الاقوامی کمیٹیوں کی جو کانفرنس 1847ء میں لندن میں منعقد ہوئی تھی، اس کے مندوبین نے اس سال لندن ہی میں مذکورہ کمیونسٹ لیگ کی بنیاد رکھی تھی جس کی کمیٹیاں یورپ کے مختلف مقامات پر کام کرتی تھیں۔ اس کی جمہوری تنظیم اور انقلابی نظریے کی بنیاد استوار کرنے میں کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

بقول سید سبط حسن ’’کمیونسٹ مینی فسٹو فقط نظریاتی منشور ہی نہیں ہے بلکہ دنیا بھر کے محنت کاروں کا رزم نامہ بھی ہے اس کو پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا مزدوروں کا لشکر فتح کا انقلابی نشان اٹھائے دشمن کو للکار رہا ہے کہ بزدلو، سامنے آئو اور اگر تم میں اخلاقی جرأت کی رمق بھی باقی ہے تو ہمارے اس رجز کا جواب دو‘‘۔

1848ء کے بعد سے اشتراکیت یعنی مزدوروں کی تحریک ایک تسلسل کے ساتھ یورپ اور امریکہ میں آگے بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ خود انیسویں صدی کی چالیسویں دہائی میں یہ تحریک پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے تھی جس کی طرف کمیونسٹ مینی فسٹو کے پہلے جملے سے نشاندہی ہوتی ہے کہ ’’ایک آسیب یورپ پر منڈلائے پھر رہا ہے۔

کمیونزم کا آسیب‘‘۔ کمیونسٹ مینی فسٹو کی اشاعت کو ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ یورپ میں ایک بار پھر انقلاب کا غلغلہ بلند ہوا۔ یہ انقلابات فرانس، آسٹریا، ہنگری، جرمنی، چیکو سلواکیہ اور اٹلی میں یکے بعد دیگرے اسی سال یعنی 1848ء میں ظہور پذیر ہوئے۔ یورپ میں مذکورہ انقلابات کے دوران میں مزدوروں اور فوج کے درمیان لڑائیاں ہوئیں، صنعتی مزدوروں کی تعداد بڑھی اور انہوں نے لڑ کر دس گھنٹے یومیہ کا حق منوا لیا۔

رفتہ رفتہ حالات مزدوروں کی بین الاقوامی تنظیم کے حق میں ساز گار ہونے لگے، چنانچہ پہلی انٹرنیشنل ایسوسی ایشن جس کا پورا نام’’انٹرنیشنل ورکنگ مینز ایسوسی ایشن‘‘تھا، 28دسمبر1864ء کو لندن میں انگریز، فرانسیسی اور جرمن مزدوروں کے ایک عظیم الشان جلسے میں قائم ہوئی۔ انٹرنیشنل ایسوسی ایشن کی مقبولیت دھیرے دھیرے بڑھنے لگی اور اس کی شاخیں اسپین، ہالینڈ، بلیجئم، فرانس جرمنی، برطانیہ اور امریکہ کے بڑے شہروں میں قائم ہوئیں۔ مارکس کی مسلسل یہی کوشش رہی کہ انٹرنیشنل ایسوسی ایشن کا بین الاقوامی کردار ابھر کر سامنے آئے اور عالمی مزدوروں کا اتحاد مضبوط اور کمیونسٹ مینی فسٹو میں دیئے گئے نعرے’’ دنیا کے مزدورو! ایک ہو جائو‘‘ کی عملی صورت اجاگر ہو۔

اسی اثناء میں فرانس نے جنگ میں جرمنی سے شکست کھائی اور لوئی بونا پارٹ کو تخت چھوڑنا پڑا۔ مزدوروں نے پیرس میں کمیونسٹ حکومت قائم کرلی۔ یہ انقلاب یعنی پیرس کمیون1871ء میں رونما ہوا۔ مزدور فرانس انقلاب دشمن فوج سے دو مہینے تک لڑتے رہے۔ آخر کار مزدوروں کو شکست ہوئی۔ پیرس کمیون کا انقلاب ناکام ہوا،مگر پیرس کمیون کے انقلاب کے نظریے کی شکست نہیں ہوئی تھی اور یہ نظریہ محنت کشوں اور مظلوم طبقات کیلئے مشعل راہ بنا رہا، چنانچہ 1886ء میں شکاگو میں مزدوروں کی تحریک ایک انقلاب کا درجہ رکھتی ہے اوریہ اسی سلسلے کی کڑی بھی تھی۔

شکاگو میں مزدوروں کا خون جو مزدوروں کی عالمی تحریک کا سنگ میل ثابت ہوا اور عالمی مزدور تحریک کے پرچم کا رنگ بن کر افق تاریخ پر چمکا اور اس سفر انقلاب کا اہم موڑ ثابت ہوا۔ یکم مئی 1886ء کو ہم اس اعتبار سے انقلاب اکتوبر کا پیش خیمہ کہہ سکتے ہیں۔