بقاء کی جنگ لڑتا دریائے ایمیزون

Published On 05 June,2023 09:47 am

لاہور: (خاور نیازی) سانپ کی طرح بل کھاتا، دنیا کے کئی ممالک سے گزرتا بلحاظ حجم دنیا کا سب سے بڑا جبکہ بلحاظ طوالت ایمیزون دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور منفرد دریا ہے۔

منفرد یوں کہ اس کے بیشتر حصوں میں ہمہ وقت ابلتا پانی رواں دواں نظر آتا ہے جسے مقامی قبائلی ’’ شانے تمپشکا ‘‘ کہتے ہیں، جس کے معنی ’’سورج کی گرمی سے ابلنے والا ‘‘ ہیں۔ عجیب یوں کہ یہ ایک پراسرار اور دیومالائی دریا ہے جس کا ذکر مقامی قبائلیوں کی کہانیوں میں ملتا ہے۔

ایندر روزو بنیادی طور پر ایک سائنسدان ہیں ، پیرو کا دارلحکومت لیما ان کا آبائی شہر ہے۔ ایندر روزو امریکہ میں ٹیکسس کی سدرن میتھو ڈسٹ یونیورسٹی میں زیر تعلیم پی ایچ ڈی کے دوران ’’ پیرو میں زیر زمین حاصل ہونے والی ممکنہ توانائی ‘‘ کے عنوان سے تحقیق کر رہے تھے ،کہتے ہیں ’’ جب اچانک مجھے یاد آیا کہ پیرو سے نکلنے والے دریائے ایمیزون جس کے متعلق ہم بچپن سے سنتے آرہے تھے کہ اس کا پانی ابلتا رہتاہے۔

یونیورسٹی میں دوران تحقیق میری سوچ اکثر مجھے اس نکتے پر بے چین کئے رکھتی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی دریا کاپانی ابلتا ہوا گرم ہو ، میں اکثر اپنے آپ سے تنہائی میں سوال کرتا کہ کیا ایسا ممکن ہو سکتا ہے؟

اس دوران میںنے ونیورسٹی میں اپنے ساتھیوں، تیل اور گیس نکالنے والی کمپنیوں کے نمائندوں ،حتی ٰکہ کچھ حکومتی اراکین سے بھی اس سوال کا جواب چاہا لیکن سب کا جواب نفی میں تھا۔ میں نے اپنی تحقیق کو آگے بڑھایا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ اگرچہ ابلتے دریا دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں لیکن وہ عام طور آتش فشاں کے ساتھ یا ان کے پہلو میں ہوتے ہیں۔اس طرح کی زمین کے اندر کی حرارت کے مظہر کیلئے بہت زیادہ گرمی یا گرم ماحول درکار ہوتا ہے جبکہ ایمیزون میں آتش فشاں نہیں ہیں۔میری تشنگی نے مجھے چین سے نہ بیٹھنے دیا اور پھر میں نے عملی طور پر دریائے ایمیزون کا رخ کیا اور یوں کچھ عرصہ بعد میرا ٹھکانا ایمیزون جنگل میں دریائے ایمیزون کے کنارے تھا۔

اس دوران میں دریا کے ساتھ ساتھ مختلف جگہوں کا درجہ حرارت چیک کرتا رہا جو یقینا ’’ میری اس تحقیق کاسب سے کٹھن مرحلہ تھا۔ مجھے یاد ہے ایک جگہ پہنچ کر میں نے محسوس کیا کہ یہاں درجہ حرارت خاصا گرم ہے۔چنانچہ میں نے اپنا تھرمامیٹر نکالا ، وہاں دریا کے اندر اوسط درجہ حرارت 86 ڈگری سینٹی گریڈ تھا جبکہ ابلنے کیلئے عام طور پر درجہ حرارت 100 ڈگری سینٹی گریڈ درکار ہوتا ہے۔

اگلے دن جب دریائے ایمیزون کے کنارے میں نے چائے پینے کی خواہش کااظہار کیا تو میرے میزبان نے مجھے ایک مگ اور ٹی بیگ تھما کر دریا کی جانب اشارہ کیا۔پانی صاف اور شفاف تھا اس کا ذائقہ بھی اچھا تھاجبکہ جیوتھرمل نظام میں یہ سب کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔ یہ درجہ حرارت بالکل ایسے ہی تھا جیسے میں نے آتش فشاؤں کے آس پاس دیکھا تھا بلکہ ’’ییلو سٹون‘‘ جیسے سپر آتش فشاں پر بھی لیکن میرے لئے سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ یہ دریا بغیر کسی آتش فشاں کے کیسے ابل رہا ہے ؟اس کا نقطہ آغاز نہ تو مقناطیسی ہے اور نہ ہی آتش فشانی کیونکہ قریب ترین آتش فشاں اس سے 700کلومیٹر دورہے۔

کچھ عرصہ پہلے ایک معروف برطانوی نشریاتی ادارے نے ایک تحقیق کے ذریعے دریائے ایمیزون کے ابلتے پانی پر ایک رپورٹ کچھ اس طرح پیش کی’’ ہاں یہ بالکل حقیقت ہے کہ اس دریا کے کچھ حصے بہت گرم ہیں۔ کئی قسم کے جانوروں کو اس پانی میں گرتے دیکھا گیا ہے۔ سب سے پہلے ان کی آنکھیں جاتی ہیں بظاہر آنکھیں جلد پک جاتی ہیں‘‘۔

6992 کلومیٹر طویل دریا کے حجم کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے بعد اگر دنیا کے سات سب سے بڑے دریاؤں کا پانی ملاکر اکٹھا کیا جائے تو دریائے ایمیزون کا پانی اس سے کہیں زیادہ ہو گا۔ اس کے معاون دریاؤں کی تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ ہے جو اس میں ضم ہوتے ہیں۔ اس علاقے کو ’’ ایموزونیا ‘‘ کہتے ہیں۔اس میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ علاقہ یعنی ایموزونیا دنیا کے نو ممالک کے ساحلی علاقوں پر مشتمل ہے۔

یہ وہ مقام ہے جہاں ایمیزون ایک بڑے جزیرے کو گھیرے ہوئے ہے۔یہ جزیرہ ماراجو سوئزرلینڈ جتنا بڑا ہے ۔ اس دریا میں بحرالکال سے بھی زیادہ مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔دریائے ایمیزون کی ابتدا جنوبی امریکہ کے ملک پیرو کے مقام نیواڈو مسمی سے ہوتی ہے۔ اس کا پانی بحیرہ اوقیانوس میں گرتا ہے ۔ دنیا بھر میں سمندروں میں گرنے والے میٹھے پانی کا پانچواں حصہ دریاے ایمیزون سے گرتا ہے۔

معروف عالمی خبر رساں ادارے ’’ روئٹرز ‘‘ کے مطابق ایمیزون میں کشتیوں کے پاس دھواں اٹھتا دیکھا گیاہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دریا کی زمین کو سونے کی غیر قانونی تلاش میں کھنگالا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی تنظیم ’’ گرین پیس ‘‘ نے برازیل کو متنبہ کیا تھا کہ دریائے ایمیزون کے ایک معاون دریا میڈیرا کے آس پاس سونے کی غیر قانونی تلاش کرنے والوں کی وجہ سے اس عظیم دریا کی بقا کوخطرات لاحق ہیں۔

سونا ملنے کی افواہوں نے اس وقت زور پکڑا جب عالمی رہنما اقوام متحدہ کی ماحولیاتی کانفرنس’’ کوپ26‘‘ کیلئے گلاسکو میں جمع تھے اور سونے کی دریافت کی بازگشت ایک غیر رسمی بحث کے طور پر سنی جاتی رہی۔ اس سے پہلے برازیل کی یونیورسٹی آف میناس گیریس نے 2020ء میں اپنی ایک رپورٹ میں اس امر کا انکشاف کیا تھا کہ برازیل میں 2019ء اور 2020ء کے درمیان نکالے جانے والے 174 ٹن سونے میں سے 66 فیصد سونا غیر قانونی طریقے سے نکالا گیا ہے۔

خاور نیازی سابق بینکر اور لکھاری ہیں، قومی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک رہ چکے ہیں۔ 

Advertisement