سینیٹ میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کی مخالفت پر قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا گیا

Published On 02 August,2023 06:12 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) سینیٹ کے اجلاس میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023 پیش کرنے پر اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا۔

سینیٹ اجلاس میں آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023ء پر حکومت اور اتحادی بھی تقسیم نظر آئے، اپوزیشن اراکین کے علاوہ بل کی پیپلز پارٹی، جے یو آئی، جماعت اسلامی، ایم کیوایم اور لیگی سینیٹر افنان اللہ نے بھرپور مخالفت کی۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023ء پیش کیے جانے کے بعد سینیٹ میں شدید مخالفت اور شور شرابے کے باعث چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو واپس بھجوا دیا۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023ء

کوئی شخص جو جان بوجھ کر امن عامہ کا مسئلہ پیدا کرتا ہے، ریاست کے خلاف کام کرتا ہے، ممنوعہ جگہ پر حملہ کرتا یا نقصان پہنچاتا ہے، جو براہ راست یا بالواسطہ دشمن کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ جرم کا مرتکب ہوگا۔

الیکٹرانک یا جدید آلات کے ساتھ یا ان کے بغیر ملک کے اندر یا باہر سے دستاویزات یا معلومات تک غیر مجاز رسائی حاصل کرنے والا مجرم ہو گا، بغیر پائلٹ وہیکل یا آلے کی ممنوعہ جگہ تک رسائی، داخل ہونے، قریب جانے یا آس پاس ہونے کا ارتکاب کرنے والا مجرم ہوگا، ہتھیار، آلات کو ضائع کرنے، پاکستان کے مفاد کے خلاف معلومات دستاویزات کا انکشاف کرنے والا جرم کا مرتکب ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ نے خودمختار دولت فنڈ بل کثرت رائے سے منظور کر لیا، اپوزیشن کی مخالفت

دشمن یا غیر ملکی ایجنٹ کے ساتھ رابطے میں رہنے یا ملنے والا ذمہ دار ہو گا، پاکستان کے اندر یا باہر ریاست کے تحفظ یا مفادات کے خلاف کام کرنے والے کے خلاف کارروائی بھی اسی ایکٹ کے تحت ہو گی، جان بوجھ کر امن عامہ، مفادات یا پاکستان کے لئے نقصان دہ کام کرنے کے جرم کے مرتکب فرد کو 3 سال قید، 10لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوں گی۔

کوئی بھی شخص جو جرم پر اکساتا ہے، سازش کرتا ہے یا اس کے ارتکاب کی کوشش کرتا ہے وہ سزا کا مستوجب ہوگا، انٹیلی جنس ایجنسیاں کسی بھی وقت بغیر وارنٹ کے کسی بھی جگہ داخل ہوکر تلاشی لے سکتی ہیں یا طاقت کا استعمال کر سکتی ہیں۔

تلاشی کے دوران برآمد ہونے والے ہتھیار، گولہ بارود، الیکٹرانک یا جدید آلات ضبط کر لئے جائیں گے، ملزم کی گرفتاری کے دوران ضبط کیا گیا مواد تفتیشی افسر یا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کے حوالے کیا جائے گا۔

تفتیشی افسر ایف آئی اے کا آفیسر ہوگا، مذکورہ افسر کی تقرری ڈی جی ایف آئی اے کرے گا، ضرورت پڑنے پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دی جا سکے گی، مذکورہ جرائم خصوصی عدالت کو بھیجے جائیں گے، خصوصی عدالت 30 دن کے اندر سماعت مکمل کر کے فیصلہ کرے گی، اس ترمیم کا مقصد سرکاری دستاویزات کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔