اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری اور علی وزیر کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔
سابق رکن قومی اسمبلی علی وزیر اور ایمان مزاری کو دہشتگردی کی دفعات کے تحت درج مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
علی وزیر کو چہرے پر کپڑا ڈال کر عدالت لایا گیا، علی وزیر روسٹرم پر آئے اور مؤقف اختیار کیا کہ جلسے میں کوئی غلط بات نہیں ہوئی، ہم نے کہا ہم اپنی بات اسلام آباد تک پہنچانا چاہتے ہیں۔
سابق رکن قومی اسمبلی علی وزیر نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج کو غلطی سے سپیکر پکار دیا جس پر جج ابو الحسنات نے کہا کہ کوئی بات نہیں، میں بھی سن رہا ہوں، آپ سپیکر کہہ سکتے ہیں، ملک ہے تو ہم ہیں، اتنا پیارا ملک ہے ہمارا۔
پراسیکیوٹر راجا نوید نے عدالت میں کہا کہ ایمان مزاری اور علی وزیر کے ذریعے شریک ملزمان تک بھی پہنچنا ہے۔
ایمان مزاری کے وکیل نے کہا کہ سوال ہے ابھی تک میری موکل کے خلاف کوئی ثبوت کیوں نہیں لایا گیا؟ فوٹوگرامیٹک ٹیسٹ یا وائس میچنگ ٹیسٹ اب تک کیوں نہیں کرایا گیا؟
وکیل نے کہا کہ ایمان مزاری کی تقریر سوشل میڈیا پر ہے، لیپ ٹاپ، موبائل بھی پولیس کے پاس ہے، ایمان مزاری کو حراست میں رکھ کر کیا ملے گا؟ یہ ایمان مزاری کو دہشت گرد ثابت کرنا چاہتے ہیں، پولیس شاید بھول گئی کہ ان کے گھر بھی مائیں بہنیں ہیں۔
ایمان مزاری کی قانونی ٹیم نے ملزمہ سے ملاقات کرنے کیلئے انسداد دہشت گردی عدالت سے اجازت طلب کرتے ہوئے کہا کہ ایمان مزاری کل بے ہوش ہوئیں، تھانے میں ان سے ملاقات نہیں کر پائے لٰہذا ملاقات کی اجازت دی جائے۔
پراسیکیوٹر راجا نوید کی جانب سے دونوں کے 10، 10 روز کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی تاہم عدالت نے ایمان مزاری اور علی وزیر کو 3، 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد محفوظ شدہ فیصلہ سنایا۔
میں نے بھوک ہڑتال کر دی ہے: ایمان مزاری
ایمان مزاری عدالت پہنچنے پر والدہ شیریں مزاری سے گلے لگ کر آبدیدہ ہوگئیں۔
ایمان مزاری نے کہا کہ میں نے بھوک ہڑتال کر دی ہے، مجھے میری نظموں کی کتابیں نہیں دی گئیں، مجھ سے دوران تفتیش کسی نے کوئی سوال نہیں پوچھے۔