ذِکر الہٰی کے فیوض و برکات

Published On 10 November,2023 11:45 am

لاہور: (صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی) ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا اور میرا حق مانو اور میری ناشکری نہ کرو‘‘(سورۃ البقرہ: 152)۔

حضرت ثابت بنانی ؒ کا فرمان ہے کہ میں جانتا ہوں کہ میرارب مجھے کب یاد کرتا ہے، لوگ پریشان ہوگئے اور پوچھا آپؒ یہ کس طرح جان لیتے ہیں، فرمایا جب میں اس کو یاد کرتا ہوں وہ مجھے یاد فرماتا ہے کیونکہ اللہ پاک نے خود قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’پھر جب نماز سے فارغ ہو جاؤ تو اللہ کو کھڑے، اور بیٹھے، اور لیٹے ہونے کی حالت میں یاد کرو‘‘ (یعنی کسی حال میں بھی ہو اس کی یاد اور اس کے ذکرسے غافل نہ ہو)، پھر جب مطمئن ہو جاؤ تو حسب دستور نماز قائم کرو‘‘ (سورۃ النساء: 103)، حضرت ابن عباسؓ کا ارشاد ہے اس سے مراد یہ ہے کہ دن، رات، خشکی، تری، سفر و حضر، فقر و قناعت، صحت و مرض اور ظاہر و باطن ہر حال میں اللہ پاک کا ذکر کرتے رہو۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے ایمان والو اللہ کو بہت یاد کرو اور صبح شام اس کی پاکی بولو‘‘ (سورۃ الاحزاب 42،41)، ’’تو کیا وہ جس کا سینہ اللہ نے اسلام کیلئے کھول دیا تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہیں، اُس جیسا ہو جائے گا جو سنگدل ہے تو خرابی ہے ان کی جن کے دل یادِ خدا کی طرف سے سخت ہوگئے ہیں‘‘ (سورۃ الزمر: 22)، ’’اور جواپنے رب کی یاد سے منہ پھیرے وہ اسے چڑھتے عذاب میں ڈالے گا‘‘(سورۃ الجن: 17)، ’’اور جس نے میری یاد سے منہ پھیرا تو بیشک اس کیلئے تنگ زندگانی ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے‘‘ (سورۃ طہٰ: 122)۔ ’’اے ایمان والو تمہارے مال نہ تمہاری اولاد کوئی چیز تمہیں اللہ کے ذکرسے غافل نہ کرے اور جو ایسا کرے گا تو وہی لوگ نقصان میں ہیں‘‘ (المنافقون: 9)۔

حضرت ابوموسیٰ ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا ’’اپنے رب کا ذکر کرنے والے اور نہ کرنے کی مثال زندہ اور مردہ (دلوں) کی سی ہے‘‘ (صحیح بخاری)، زندگی ہر شخص کو محبوب ہے اور مرنے سے ہر شخص ہی گھبراتا ہے، بعض علماء نے فرمایا ہے کہ جوشخص اللہ پاک کا ذکر کرتا ہے اس کا دل زندہ رہتا ہے اور جو ذکر نہیں کرتا اس کا دل مر جاتا ہے اور بعض علماء نے فرمایا ہے کہ تشبیہ نفع اور نقصان کے اعتبارسے ہے کہ اللہ کا ذکر کرنے والے شخص کو جو ستائے وہ ایسا ہے جیسا کسی زندہ کو ستائے کہ اس سے انتقام لیا جائے اور وہ اپنے کئے ہوئے کو بھگتے گا اور غیر ذاکر کو ستانے والا ایسا ہے جیسا مردے کو ستانے والا کہ وہ خودانتقام نہیں لے سکتا۔

حکیم ترمذیؒ کہتے ہیں کہ اللہ کا ذکر دل کو تر کرتا ہے اور نرمی پیدا کرتا ہے اور جب دل اللہ کے ذکر سے خالی ہوتا ہے تو نفس کی گرمی اور شہوت کی آگ سے خشک ہو کر سخت ہو جاتا ہے اور سارے اعضاء سخت ہو جاتے ہیں، اطاعت سے رُک جاتے ہیں اگر ان اعضاء کو کھینچو تو ٹوٹ جائیں گے جیسے کہ خشک لکڑی کہ جُھکانے سے نہیں جُھکتی صرف کاٹ کر جلا دینے کے کام کی رہ جاتی ہے۔

حضور اکرم ﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ ’’اگرایک شخص کے پاس بہت سے روپے ہوں اور وہ ان کو تقسیم کر رہا ہو اور دوسرا شخص اللہ پاک کے ذکر میں مشغول ہو تو ذکر کرنے والا افضل ہے‘‘ (طبرانی )، اللہ رب العالمین کے راستے میں خرچ کرنا کتنی ہی بڑی چیزکیوں نہ ہو لیکن اللہ رب العالمین کی یاد اس کے مقابلے میں بھی افضل ہے، حضور اکرم ﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ ’’جنت میں جانے کے بعد اہل جنت کو دنیا کی کسی چیز کا بھی قَلَق و افسوس نہیں ہوگا بجز اس گھڑی کے جو دنیا میں اللہ پاک کے ذکرکے بغیر گزر گئی ہو‘‘ (طبرانی، بیہقی)۔

حضرت ابو درداء ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ’’کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جو سب سے اچھا ہو اور تمہارے مالک کو زیادہ پسند ہو اور اس کی وجہ سے تمہارے درجات بلند ہوں اور تمہارے لئے سونا چاندی خرچ کرنے اور دشمن سے ایسی جنگ کرنے سے کہ وہ تمہاری گردنیں اتار دیں اور تم ان کی گردنیں اتارو سے بہتر ہو‘‘، صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! وہ کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا ’’وہ اللہ پاک کا ذکر ہے‘‘ (ترمذی،ابن ماجہ)، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے ’’آسمان والے اہل ذکر کے گھروں کو ایسے روشن دیکھتے ہیں جیسے زمین والے ستاروں کو روشن دیکھتے ہیں‘‘(ابن ابی شیبہ)۔

حدیث پاک میں ہے کہ جس مجلس میں اللہ پاک کا ذکر نہ ہو آقاﷺ پر درود نہ ہو، اس مجلس والے ایسے ہیں جیسے مرے ہوئے گدھے پر سے اُٹھے ہوئے ہوں، ایک اور حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ مجلس کا کفارہ یہ ہے کہ اس کے اختتام پر یہ دعا پڑھ لے سبحان اللّٰہ وبحمدہٖ سبحانک اللھم وبحمدک اشھدان لااِلٰہ اِلَّااَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکْ، ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ جو بھی مجلس ایسی ہو جس میں اللہ کا ذکر، نبی کریم ﷺ پر درود شریف نہ ہو وہ مجلس قیامت کے دن حسرت اور نقصان کا سبب ہوگی، پھر حق تعالیٰ اپنے لطف سے چاہے مغفرت فرما دے، چاہے مطالبہ عذاب فرما دے۔

ایک اور حدیث پاک میں آیا ہے کہ مجلسوں کا حق ادا کیا کرو اور وہ یہ ہے کہ اللہ کا ذکر ان میں کثرت سے کرو، راہگیروں کو (بوقت ضرورت) راستہ بتاؤ اور (ناجائز چیز سامنے آجائے تو) آنکھیں بند کر لو(یا نیچی کر لو کہ اس پر نگاہ نہ پڑے) حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا ’’جب تم جنت کی کیاریوں سے گزرو تو (ان میں سے) خوب کھایا کرو‘‘، صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا (یارسول اللہﷺ) جنت کی کیاریاں کونسی ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا ’’ذکر الٰہی کے حلقہ جات ‘‘ (ترمذی ، مسند احمد ، بیہقی )۔

حضرت عبداللہ بن عمروؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضورنبی اکرمﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیا،یارسول اللہﷺ !مجالسِ ذکرکی غنیمت یعنی نفع کیاہے ؟آپﷺ نے فرمایا’’مجالس ذکرکی غنیمت جنت ہے ‘‘ (احمدبن حنبل ،طبرانی)۔حضرت ابودردائؓ سے روایت ہے کہ آقائے دوجہاں سرورکون و مکاںﷺنے فرمایا ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کچھ ایسے لوگوں کو اٹھائے گاجن کے چہرے پرنورہوں گے، وہ موتیوں کے منبروں پرہوں گے لوگ انہیں دیکھ کررشک کریں گے۔ نہ تو وہ انبیاء ہوں گے اورنہ ہی شہدائ‘‘۔حضرت ابودردائؓ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کرکہنے لگا یارسول اللہﷺ!آپﷺ ہمارے سامنے ان کاحلیہ بیان فرمائیں تاکہ ہم انہیں جان لیں۔ آپﷺ نے فرمایا ’’یہ وہ لوگ ہیں جو مختلف قبیلوںاورمختلف علاقوں سے تعلق رکھنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی خاطرایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اکٹھے ہوکراللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں‘‘(احمدبن حنبل، بیہقی فی مجمع الزوائد)۔

ابوواقدحارث بن عوفؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے لوگ بھی بیٹھے تھے کہ 3 آدمی آئے وہ آدمی آقاﷺ کی طرف چلے آئے اور ایک آدمی واپس چلا گیا، وہ دونوں (کچھ دیر) آقاﷺ کے پاس کھڑے رہے پھر ان میں سے ایک آدمی کو بیٹھنے کی جگہ نظر آئی اور وہ مجلس میں بیٹھ گیا اور دوسرا آدمی لوگوں کے پیچھے بیٹھ گیا، جب حضورﷺ فارغ ہوئے تو فرمایا ’’کیا میں تمہیں ان 3 آدمیوں کے متعلق نہ بتاؤں ؟ پس ان میں سے ایک آدمی تو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آیا تواللہ تعالیٰ نے اس کو پناہ دے دی اور دوسرے نے شرم محسوس کی تواللہ تعالیٰ نے اس سے شرم کی اور تیسرے نے روگردانی کی تواللہ تعالیٰ نے بھی اس سے اعراض فرمایا‘‘ (متفق علیہ)۔

حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت ابوسعیدؓ خدری دونوں نے گواہی دی کہ حضورﷺ نے فرمایا ’’جب بھی لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر کیلئے بیٹھتے ہیں فرشتے انہیں ڈھانپ لیتے ہیں اور رحمت الٰہی انہیں اپنی آغوش میں لے لیتی ہے اور ان پر سکینہ کا نزول ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ ان کا ذکراپنی بارگاہ کی حاضری میں کرتا ہے ‘‘(مسلم شریف ، ترمذی)۔

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ’’بیشک اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہیں جو راستوں پر پھرتے رہتے ہیں اور اہل ذکر کو تلاش کرتے رہتے ہیں اور جب انہیں کوئی ایسی جماعت نظر آتی ہے جو اللہ کا ذکر کر رہے ہوں تو فرشتے آواز دیتے ہیں ’’اپنے مقصد کی طرف آؤ‘‘، پس فرشتے انہیں اپنے پروں کے ساتھ آسمان دنیا تک ڈھانپ لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھتا ہے، حالانکہ وہ سب کچھ جاننے والا ہے ’’میرے بندے کیا کہتے ہیں ؟‘‘آپﷺ نے فرمایا، فرشتے عرض کرتے ہیں اے اللہ! وہ تیری تسبیح، تکبیر، حمد اور بزرگی بیان کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں نہیں، خدا کی قسم انہوں نے آپ کو نہیں دیکھا، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے اگر انہوں نے مجھے دیکھا ہوتا تو ان کی حالت کیا ہوتی؟آقاﷺنے فرمایا، فرشتے عرض کرتے ہیں اگر وہ آپ کودیکھ لیتے تو اور زیادہ آپ کی عبادت کرتے، تیری اور زیادہ بزرگی بیان کرتے، اور زیادہ تیری تسبیح بیان کرتے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے وہ کیا مانگتے ہیں ؟فرمایا، فرشتے عرض کرتے ہیں وہ آپ سے جنت مانگتے ہیں۔ فرمایا، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کیا انہوں نے جنت کو دیکھا ہے فرمایا! فرشتے عرض کرتے ہیں نہیں! خدا کی قسم! اے ہمارے رب انہوں نے جنت کو نہیں دیکھا، فرمایا! اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے اگر وہ جنت کودیکھ لیں توان کی کیا حالت ہو؟ فرمایا، فرشتے عرض کرتے ہیں اگر وہ جنت کو دیکھ لیں تو وہ جنت کے زیادہ آرزو مندہوں، اسے زیادہ شدت سے طلب کریں اور اس کیلئے ان کی رغبت بہت زیادہ ہو جائے۔

اللہ نے ارشاد فرمایا، وہ کس چیزسے پناہ مانگتے ہیں؟ فرمایا، فرشتے عرض کرتے ہیں وہ دوزخ سے پناہ مانگتے ہیں، فرمایا، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کیا انہوں نے دوزخ کو دیکھا ہے؟ فرمایا، فرشتے عرض کرتے ہیں نہیں خدا کی قسم! انہوں نے اسے نہیں دیکھا، تواللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، اگر وہ دوزخ کودیکھ لیں تو ان کی کیا حالت ہو؟ فرمایا، فرشتے عرض کرتے ہیں اگر وہ دوزخ کو دیکھ لیں تو اور زیادہ اس سے دور بھاگیں اور اس سے اور زیادہ ڈریں۔

فرمایا،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انہیں بخش دیا ہے، فرمایا، ایک فرشتہ عرض کرتا ہے، ان میں فلاں شخص بھی ہے جو ان میں سے نہیں وہ تو کسی غرض سے وہاں آیا تھا تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے وہ ایسے ہم مجلس ہیں جن کی مجلس میں بیٹھنے والا بدبخت نہیں ہوسکتا‘‘ (متفق علیہ)۔

حضرت ابوسعیدؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا ’’اللہ فرماتا ہے قیامت کے دن اکٹھا ہونے والوں کو پتہ چلے گا کہ بزرگی اور سخاوت والے کون لوگ ہیں؟‘‘ عرض کیا گیا، یارسول اللہﷺ! بزرگی والے کون لوگ ہیں ؟ آپﷺ نے فرمایا ’’مجالس ذکر منعقد کرنے والے‘‘ (مسند احمد بن حنبل ، ابن حبان)

اللہ پاک ہمیں اپنا ذکر کثرت سے کرنے کی توفیق عطا فرمائے، وطنِ عزیز پاکستان کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنائے، بروز قیامت آقاﷺ کی شفاعت اور اپنی جنت کا حقدار بنائے اور مسلمانوں کو آپس میں اتفاق و اتحاد نصیب فرمائے۔ آمین

پیرطریقت،رہبر شریعت صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی ترجمان جماعت اہل سنت پاکستان صوبہ پنجاب ،خطیب جامعہ الطافیہ سلطان الذاکرین ہیں،27 سال سے لکھ رہے ہیں۔