پشاور: ( خوشحال خان ) 3 اکتوبر 2023ء کو ایپکس کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکی شہری 31 اکتوبر 2023 تک پاکستان چھوڑ دیں ورنہ یکم نومبر سے ان کے خلاف کارروائی ہو گی اور ان کو پکڑ کر ملک بدر کیا جائے گا۔
سرکاری اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اب تک 2 لاکھ 50 ہزار سے زائد غیر قانونی مقیم افغان باشندوں کی وطن واپسی ہو چکی ہے، پاکستانی حکام کا بتانا ہے کہ ملک میں 40 لاکھ افغان شہری مقیم ہیں جس میں 13 لاکھ رجسٹرڈ افغان پناہ گزین ہیں، 10 لاکھ کے پاس کوئی شناخت نہیں اور 17 لاکھ افغان شہریوں کی شناختی دستاویزات کی تصدیق کی جا رہی ہے۔
اسی فیصلے کے پیش نظر جیل سے بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ افغان مہاجرین کے ساتھ رکھا جانے والا سلوک دینِ اسلام، کتاب اللہ، سنّتِ رسولِ مکرّم صلی اللہ علیہ وسلّم اور ہماری معاشرتی اقدار سے متصادم ہے، جنگ و آفات کے نتیجے میں اپنی زمین سے محروم کئے جانے والے پناہ کے طالب مہاجرین کے ساتھ حسنِ سلوک اور عزت و تکریم کے ساتھ ان کی دیکھ بھال بطور قوم ہم پر فرض ہے۔
تحریک انصاف کے بانی نے مزید کہا کہ پاکستان نے 40 برس تک افغان مہاجرین کی خدمت کی اور پورے معاملے کو تہذیب، شائستگی اور حکمت سے نہیں نمٹایا جارہا۔
سابق چیئرمین پی ٹی آئی کے خیال میں محض ناقص حکمتِ عملی کے باعث برسوں پر محیط مہمان نوازی کے اثرات ضائع کئے جارہے ہیں جس سے دونوں ممالک کے مابین دیرپا تعلقات میں ایک مستقل دراڑ کا اندیشہ ہے، ان کے خیال میں 250 ملین نفوس پر مشتمل قوم پر 1.5 ملین مہاجرین کچھ زیادہ بوجھ نہیں۔
بانی پی ٹی آئی کے اس بیان کے بعد ہم جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستان سے ان غیر قانونی افغان شہریوں کا انخلا کیوں ضروری ہے؟
اگر آج کل کے اندرونی سکیورٹی حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہی افغان باشندے پاکستان میں اغوا برائے تاوان، منشیات فروشی، غیر قانونی اسلحہ، ٹریفک حادثات، انسانی سمگلنگ اور دیگر بڑے جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں، بہت سے غیر قانونی افغان باشندے خیبرپختونخوا میں مختلف جرائم میں مطلوب ہیں جن میں سے 3900 سے زائد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، 2014ء سے اب تک 21 کو سزائے موت دی جا چکی ہے۔
نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ٹی ٹی پی افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کر کے بزدلانہ حملے کر رہی ہے، پچھلے کچھ عرصے میں خودکش حملوں میں 15 افغان شہری بھی شامل تھے۔
یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ دنیا میں کونسا ملک اپنے کسی کو ملک میں بغیر ویزے کے آنے کی اجازت دیتا ہے؟ کیا آپ سعودی عرب، برطانیہ، کینیڈا، قطر یا امریکہ بغیر ویزے کے جاسکتے ہیں؟ ہر گز نہیں، ایک تازہ رپورٹ کے مطابق افغان سپیشل فورسز کے تقریباً 200 ارکان، جنہیں برطانیہ کی طرف سے تربیت اور مالی اعانت فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا انہیں اپنے وطن واپس بھیج دیا۔
اس پس منظر میں کیا بانی پی ٹی آئی کا یہ حالیہ بیان افغان مہاجرین سے حقیقی ہمدردی ہے یا ایک اور سیاسی بیانیہ؟
افغان مہاجرین کی اپنے وطن واپسی پر گیلپ پاکستان نے بھی ایک سروے جاری کیا ہے، اس کے مطابق 84 فیصد افراد نے پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دینے کو اچھا فیصلہ قرار دے دیا۔
ساتھ ہی گیلپ پاکستان کے سروے کے مطابق 64 فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے ان افغان شہریوں کے اپنے وطن واپس جانے سے پاکستان میں امن و امان کی صورت حال بھی بہتر ہو جائے گی، مزید برآں سروے کے مطابق 55 فیصد پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ ان غیر قانونی افغان شہریوں کی وطن واپسی سے پاکستانی معیشت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
بانی پی ٹی آئی کے بیان کی بات کی جائے تو بانی پی ٹی آئی کو بتاتا چلوں پاکستان میں 47 ملین کے قریب لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور انہیں صرف ایک وقت کا کھانا مہیا ہوتا ہے لیکن آپ جیل سے فرما رہے ہیں 250 ملین نفوس پر مشتمل قوم پر 1.5 ملین مہاجرین کچھ زیادہ بوجھ نہیں۔
آپ اپنے بیانات بھول گئے جب دو سال پہلے آپ نے خود کہا تھا کہ اگر افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو پاکستان کو بھی ایسے ہی خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا، انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اب افغان مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔
اس سے قبل پی ٹی آئی حکومت کے سابق قومی سلامتی کے مشیر (این ایس اے) معید یوسف نے بھی اگست 2021 میں واشنگٹن ڈی سی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان مزید افغان مہاجرین کی میزبانی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔
اسلام آباد میں ایک اور پریس کانفرنس میں معید یوسف نے پی ٹی آئی کے سابق وفاقی وزیر فواد چودھری کے ساتھ کہا کہ افغان مہاجرین کی باوقار واپسی کا وقت آگیا ہے۔
بانی پی ٹی آئی اس نکتے پر ہیں کہ ہمیں افغان مہاجرین کے ساتھ عزت،وقار کے ساتھ سلوک کرنا چاہیے تو یہاں یہ بتاتا چلوں کہ 40 سال سے ہم یہی کرتے آرہے ہیں، پاکستان نے 40 سال بہت صبر کا مظاہرہ کیا لیکن اب پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور اب وقت آن پہنچا ہے کہ پاکستان میں موجود غیر قانونی مقیم افغانیوں اور باقی شہریوں کو واپس اپنے وطن بھیج دیا جائے۔
لیکن سوال یہ بھی ہے اگر کوئی غیر قانونی مقیم شہری ریاست کے خلاف جرائم میں ملوث ہو تو اسے اپنے ملک میں رہنے کے لیے کونسا ملک اجازت دیتا ہے؟ اس لیے پاکستان میں مقیم تمام غیر ملکی شہریوں کو باعزت طریقے سے خود جانا چاہیے۔
اگر بانی پی ٹی آئی کو واقعی افغان مہاجرین کی حالت زار کی پرواہ ہوتی تو وہ اپنے دور حکومت میں ان کی صحیح طریقے سے رجسٹریشن کراتے اور پاکستان کے گہرے معاشی مسائل کو حل کرتے تاکہ معاشرہ اور معیشت ان لاکھوں افراد کو جذب کرنے کے لیے بہتر حالت میں ہوتی۔