گداگری ۔۔۔۔ ایک معاشرتی ناسور!

Published On 01 January,2024 12:25 pm

لاہور: (دانیال حسن چغتائی) دنیا میں پاکستان کا شمار سب سے زیادہ خیرات دینے والے ممالک میں ہوتا ہے، یہ خیرات مختلف صورتوں میں دی جاتی ہے، پاکستان میں گداگری کی بڑھتی ہوئی اہم وجہ غلط طریقے سے خیرات دینا ہے، اگر خیرات اور زکوٰۃ اسلامی نقطہ نظر کے مطابق دی جائے تو معاشرے میں غریب طبقے کی شرح کم ہوتی نظر آئے گی، عام عوام کا گداگری بڑھنے میں بڑا ہاتھ ہے جو بغیر کچھ جانے پیسے اللہ کا نام سن کر دیتی ہے۔

پاکستان میں گداگری ایک پیشہ بلکہ مافیا کی شکل اختیار کر چکا ہے، گلیوں، بازاروں، شاپنگ مالز اور چوراہوں میں گداگر مرد خواتین اور بچے نئے روپ اختیار کئے ہوئے ہاتھ پھیلائے ہوئے نظر آتے ہیں، 65 فیصد گداگر کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں لیکن انھوں نے گداگری کو اپنا رکھا ہوتا ہے، مقدس مہینوں میں گدا گروں کا سیزن عروج پر آجاتا ہے۔

علوم عمرانیات کے ماہرین گداگری کو ایک ایسا سماجی رویہ قرار دیتے ہیں، جس کے تحت معاشرے کا محروم طبقہ بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے دوسروں کی امداد کا محتاج ہو جاتا ہے، یہ طبقہ امیر افراد سے براہ راست اشیاء خورونوش، لباس اور دیگر ضروریات کیلئے رقم کا مطالبہ کرتا ہے۔

گداگری غربت اور محرومی سے پیدا ہونے والی ایک سرگرمی کا نام ہے، یہ دوسروں کے سامنے پیش کی جانے والی ایسی درخواست کا نام ہے جسے پیش کرنے کا مقصد حصول رقم یا صدقات ہوتا ہے، جسے پیش کرنے والا یہ رقم ذہنی و جسمانی مسائل غربت وغیرہ کے سبب خود کمانے سے قاصر ہوتا ہے، پسماندگی اور غربت کے باعث دن اور رات لمحات میں ہر سمت بھیگ مانگتے نظر آتے ہیں، ان میں بچوں کی تعداد انتہائی دردناک صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔

گداگری نہ صرف ملک کیلئے بدنامی اور رسوائی کا سبب ہے بلکہ یہ بہت سے جرائم کو بھی جنم دیتی ہے، یہ ڈکیتی اور اس کے متعلق معلومات کا سبب بنتے ہیں، بھکاری خواتین گھروں میں مانگنے کے بہانے داخل ہو کر وارداتیں کرتی ہیں، عرب ملکوں میں اغوا شدہ بچوں کو اونٹوں کی دوڑ کیلئے سمگل کرنے میں بھی گدا گروں کا بڑا ہاتھ ہے۔

آج پاکستان کے ہر شہر کی سڑک، ہر گلی، ہر محلے، ہر بازار میں گداگروں کے بے شمار گروہ موجود ہیں، کراچی جو پاکستان کا معیشت اور رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر ہے، کراچی میں ان کی تعداد دوسرے شہروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔

ملک میں بڑھتے ہوئے اس مسئلے نے سنگین نوعیت اختیار کر لی ہے لیکن خوفناک بات یہ ہے کہ اس اہم ترین اور سنگین معاملے پر ہمارے حکام کی توجہ ہی نہیں، پاکستان میں مہنگائی نے جو ظلم ڈھائے ہیں، اس کا بھی گداگری بڑھنے سے تعلق ہے، آج پاکستان میں گداگری کا پیشہ ایک مافیا کی شکل اختیار کر چکا ہے، ایک پورا نیٹ ورک ان گداگروں کے پیچھے کام کر رہا ہے اور یہ کام پوری پلاننگ کے ساتھ ہے۔

اس نیٹ ورک کے لوگ اپنے بندے مختلف جگہوں پر کھڑے کرتے ہیں اور بھیک منگواتے ہیں، ہر بھکاری کی جگہ مخصوص ہوتی ہے، اس کی جگہ پہ دوسرا بھکاری نہیں کھڑا ہو سکتا اور ساتھ ساتھ مانگنے کے اوقات کار بھی متین ہوتے ہیں، اس گداگر مافیا کے گروپ میں جو بھکاری سب سے زیادہ کما کر دیتا ہے، اس کو اتنے ہی اچھے علاقے میں تعینات کیا جاتا ہے، ایک علاقے کا گداگر دوسرے علاقے میں جا کر نہیں مانگ سکتا جبکہ بھکاریوں کے اڈے لاکھوں روپے کے ٹھیکے پر بکتے ہیں۔

معاشی اور معاشرتی طور پر گداگری کی وجوہات کچھ بھی ہوں، گداگری ایک لعنت ہے جو معاشرے کو پستی وذلت کا شکار کرتی ہے جس سے عزت نفس اور محنت کی عظمت کے تمام خیالات و نظریات بری طرح متاثر ہوتے ہیں، گداگر چونکہ اپنی ظاہری حالت خراب رکھتے ہیں اور صفائی ستھرائی کا اکثر اہتمام نہیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ خطرناک بیماریوں کا شکار ہو کر اپنے آس پاس بسنے والے دوسرے لوگوں کو بھی متاثر کرتے ہیں، پاکستان میں اب ہی تک حکومت ان کیخلاف کارروائی کرنے میں ناکام نظر آئی ہے۔

پاکستان میں ہر سال مختلف شہروں سے بچوں کو اغوا کرنا اور پھر ان کو غلط کام کیلئے استعمال کرنا ایک بڑے خطرے کی نشانی ہے، ان تمام تر صورت حال پر حکومت کو درست کام کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان کے نیچے طبقے کے بچوں کا مستقبل ان پیشہ وار لوگوں کر ہاتھ قتل ہو رہا ہے، ان لوگوں کے حق میں آواز اٹھانے والا کوئی نہیں۔ یہ پیشہ وار لوگ بے خوف ان بچوں کی زندگی کھیل رہے ہیں۔

ان بچوں کو تو معلوم بھی نہیں کہ ان کے ساتھ ہو کیا رہا ہے وہ تو ان پیشہ ور لوگوں کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں، جس میں غلطی ارباب اختیار کے ساتھ معاشرے کے ان تمام لوگوں کی ہے جو بآسانی کسی بھی گداگر کو مانگنے پر کچھ پیسے دیتے ہیں، ان کے یہ کچھ پیسے جو ثواب کی نیت سے دیئے جاتے ہیں، یہ گداگری کے پیشہ کی جڑے مضبوط کرنے میں اہم کام انجام دے رہی ہیں۔

دانیال حسن چغتائی نوجوان لکھاری ہیں، معاشرتی اور سماجی مسائل پر مبنی ان کے مضامین مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔