لاہور: (مولانا محمد اکرم اعوان) اللہ کریم قرآن مجید، فرقان حمید میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا‘‘(سورہ آل عمران:103)، اس آیت کریمہ میں یہ اصول بتایا جا رہا ہے کہ اتفاق قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہر ایک اپنی اپنی رائے سے دستبردار ہو کر صرف اللہ کی بات پر متفق ہو جائے۔
جب سب کا محور اللہ کی ذات ہوگی، اللہ سے تعلق ہوگا تو ہر ایک اپنی ذاتی رائے پر اللہ اور اللہ کے نبیﷺ کے حکم کو ترجیح دے گا تو تفریق نہیں ہوگی، یہاں سے سمجھ لینا چاہئے کہ انسان مختلف طبیعتیں اور رحجانات رکھتے ہیں اس لئے رائے میں اختلاف ہوتا ہے۔
اختلاف رائے وہاں ہو سکتا ہے جہاں اصول میں سب متحد ہوں اور اصول کی فرع میں مختلف رائے رکھتے ہوں اور تفرقہ کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی حق کو قبول نہ کرے اور اپنی بات منوانے پر اصرار کرے، ضروریات دین کو ماننا لازم ہے، اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کو ویسے نہ ماننا آخرت کو ویسے نہ ماننا جیسے اللہ نے حکم دیا اور نبی کریم ﷺ نے بتایا ضروریات دین میں سے کسی کا انکار کرنا یہ سب دین میں تفرقہ ڈالتا ہے اور تفرقہ کفر ہے لیکن جو لوگ حق کو ویسے قبول کرتے ہیں جیسے حضورﷺ نے سکھایا، ضروریات دین کا انکار نہیں کرتے، اصول میں متحد ہیں لیکن اصول کی فرع میں اختلاف ہے تو یہ اختلاف اور تفرقہ نہیں، یہ اللہ کے تعمیل ارشاد کی مختلف صورتیں ہیں، ایک ہی کام کو کرنے کے مختلف انداز ہیں۔
ہر شخص اپنی اپنی استعداد اور اپنی اپروچ کے مطابق خلوص کے ساتھ اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کی اطاعت کرے اور آپﷺ کے منشاء کو مدنظر رکھ کر اطاعت کی جائے تو یہ تفرقہ نہیں، اگر اللہ کی بات ماننے میں اس نے ارشاد باری تعالیٰ کی وہ تعبیر کی جو منشاء نبویﷺ کے مطابق ہے، دین کے اصولوں کے خلاف نہیں ہے تو اس کی تعبیر درست ہے لیکن یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ جس انداز میں ایک نے اس کی تعبیر کی دوسرا اس سے بہتر انداز میں تعبیر کر لے، بہتر انداز سے سمجھ لے تو یہ تفرقہ نہیں۔
یہ ایسا اختلاف ہے جو امت کیلئے باعث رحمت ہے بشرطیکہ اس میں اللہ سے خلوص ہو، نبی کریمﷺ سے خلوص ہو اور کوئی ایسی تعبیر نہ سمجھی جائے جو منشاء نبویﷺ کے خلاف ہو اور ان حدود کے خلاف ہو جو حدود قرآن و سنت کو سمجھنے کیلئے آپﷺ نے متعین فرما دی ہیں، لہٰذا اگر للہیت ہو تو مختلف ذہن رکھنے والے دین پر عمل کرتے ہیں، دین میں جھگڑا نہیں کرتے اور یہ آیت ایمان کا ایک معیار ہے کہ اگر سب کو اللہ سے محبت ہوگی تو سب کا مقصد ایک ہوگا۔
اطاعت الہٰی اتباع نبویﷺ خالص اللہ کے لئے لیکن اگر کوئی مخلص نہ ہو دین کی آڑ میں اپنی بات منوانا چاہتا ہو تو فرقہ بازی آئے گی، لوگ بٹ جائیں گے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالیں گے۔
اسلام کی برکتوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ اسلام آیا اور دلوں کو محبتوں سے جوڑ دیا، اپنے ماننے والوں کو محبتوں کے خزانے عطا کر دیئے، فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ کے انعامات کو یاد کرو تم سب ایک دوسرے کے دشمن تھے اللہ نے اپنے نبیﷺ کو مبعوث فرما کر اپنے دین کو نافذ فرما کر تمہاری دشمنیاں دوستیوں میں تبدیل کروا دیں اور تم دیکھتے ہی دیکھتے بھائی بھائی بن گئے۔ اور تم دوزخ کے کنارے کنارے پھرا کرتے تھے پھراللہ نے اپنے نبیﷺ کے ذریعے اللہ کے دین پر چلنے کے سبب تمہیں وہاں سے اچک لیا، اللہ اپنی آیات اپنے دلائل اور اپنی بات اس طرح کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تمہیں ہدایت نصیب ہو اور سیدھے راستے پر چلنا نصیب ہو۔
یہ آیات معیار ہیں کہ کس کا کردار حق پر ہے، جب انسان ایک دوسرے پر مسلط نہ ہوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش نہ کریں، ایک دوسرے پر الزام لگانے کی کوشش نہ کریں بلکہ ہر انداز سے سب صرف اللہ کی اطاعت کریں تو یہ حق پر ہونے کی بڑی نشانی ہے۔
اہل اللہ کی صحبت میں دل میں یہ کیفیت آتی ہے کہ آدمی دوسرے مسلمان کو بحیثیت مسلمان برداشت کرتا ہے اور اتنا نرم بھی نہیں ہوتا کہ کفر کو کفر ہی نہ کہے۔
مولانا محمد اکرم اعوان مفسر قرآن، مذہبی پیشوا اور متعدد کتب کے مصنف ہیں۔