لاہور:(میاں وقاص ظہیر)الیکشن 2024 نے جہاں بہت سے نئے امیدواروں کو پارلیمنٹ میں بھیجا ہے وہاں ووٹرز نے پرانی اور نوزائیدہ جماعتوں کے سربراہوں کو بھی عبرت ناک شکست سے دو چار کیا ہے۔
ان ہارنے والوں میں سرفہرست نام استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر ترین کا ہے، جن کے بارے میں 2018میں مخالف جماعتوں کی جانب سے یہ کہا جاتا تھا کہ انہوں نے تحریک انصاف کی حکومت بنانے میں پل کا کردار ادا کیا تھا، یوں 2018میں پاکستان تحریک انصاف وفاق ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔
جہانگیر ترین کا گزشتہ دورمیں مبینہ طور پر چینی سکینڈل سامنے آنے پر یہ قیاس کیا جاتا رہا ہے کہ چینی سکینڈل بانی پی ٹی آئی اور جہانگیر ترین کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی وجہ بنا۔
یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ جہانگیر ترین بانی پی ٹی آئی پر کئی بار الزام لگا چکے ہیں کہ 2017 میں ہونے والی آف شور کمپنی کے کیس میں سپریم کورٹ سے ہونے والی ان کی نااہلی میں بانی پی ٹی آئی کا بڑا ہاتھ تھا۔
بانی پی ٹی آئی سے راہیں جدا کرنے اور تحریک انصاف کے اقتدار کا سورج غروب ہونے کے بعد جہانگیر ترین نے علیم خان سے مل کر استحکام پاکستان پارٹی کی بنیاد رکھی اور کئی منحرف پی ٹی آئی رہنماؤں کو پارٹی میں شامل کرکے2024کے انتخابی دنگل میں اتارا، یہ بھی قیاس کیا جارہا تھا کہ نوزائیدہ استحکام پاکستان پارٹی اس دنگل میں ملک بھر سے تقریباً 10 قومی کی نشستیں آسانی سے جیت گئی ۔
لیکن حالیہ الیکشن2024 میں سربراہ استحکام پاکستان پارٹی کو اپنے آبائی حلقے لودھراں کی این اے 155اورملتان کے حلقےاین اے 149 سے عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا جو بادی النظر میں حلقے کے عوام کا استحکام پاکستان پارٹی اور خود جہانگیر ترین پر عدم اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔
اس فہرست میں دوسرا بڑا نام شیخ رشید کا ہے جنہیں میڈیا کے کسی بھی پروگرام کی زینت نہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، لال حویلی کے مکین اور فرزند راولپنڈی کے نام سے اپنی پہچان رکھنے والے شیخ رشید عوامی مسلم لیگ کے سربراہ ہیں، جو ماسوائے ایک بار مسلسل اپنے آبائی حلقے این اے 56 سے فتح سمیٹتے رہے ہیں اس بارن لیگ کے حنیف عباسی سے شکست سے دوچار ہوئے ہیں۔
تیسرا بڑا نام سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کا آتا ہے جو سیاسی اور آبائی حلقوں میں کافی اثر ورسوخ رکھتے ہیں، ق لیگ کے دھڑوں میں تقسیم ہونے کے بعد ایک دھڑے کے سربراہ اور صدر تحریک انصاف کی حیثیت سے قید وبند کی صعوبتیں جھیلنے والے پرویز الہٰی بھی صوبائی نشست پی پی 32 گجرات 6 سے اپنے رشتہ دار سالک حسین سے بری طرح ہار گئے ہیں۔
خیبر پختونخوا کا ایک اور معتبر نام سربراہ جماعت اسلامی سراج الحق کا بھی ہے جو لوئر دیر این اے 6 سے منتخب ہوتے آئےہیں لیکن اس بار انہیں بھی اپنے انتخابی حلقے سے ووٹرز نے ووٹ کے ذریعے شکست سے دوچار کیا ہے۔
خیبر پختونخوا کی باچا خان فیملی کے چشم و چراغ ایمل ولی خان کا نام بھی اسی شکست خورہ امیدواروں کی فہرست میں شامل ہے جو عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ ہیں اور حالیہ الیکشن میں این اے 25 چارسدہ سے انتخابات لڑ رہے تھے جنہیں وہاں کے عوام نے مسترد کرتے ہوئے پارلیمنٹ جانے سے روک دیا ہے۔
اسی صوبے کا ایک اور اہم نام قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ کا بھی ہے جو رواں الیکشن میں اے این پی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے باوجود بھی این اے 24 چارسدہ سے بڑے مارجن سے ہار گئے ہیں۔
حالیہ الیکشن میں تحریک انصاف کو صوبے میں دفن کرنے کا دعویٰ کرنے والے سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا و وزیر دفاع پرویز خٹک جوایک نوزائیدہ جماعت پاکستان تحریک انصاف (پارلیمیٹیرینز) کے سربراہ ہیں، پرویز خٹک اپنے آبائی حلقے نوشہرہ میں صوبائی اسمبلی کی نشست پی کے 87 اور پی کے 88میں سےکوئی بھی سیٹ نہ بچا سکے اور سیاسی دنگل سے ناک آؤٹ ہو گئے، ان کے دنوں بیٹے اور داماد کو بھی مخالف امیدواروں نے چاروں شانے چت کردیا ہے۔