اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وفاقی وزیر فواد چودھری کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
فواد چودھری کے خلاف جہلم میں تعمیراتی منصوبوں میں خورد برد کیس میں درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ہوئی، احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے درخواست ضمانت پر دلائل سنے۔
وکیل صفائی عامر عباس نے کہا کہ سپریم کورٹ میں کیس ہے، مصروف دن ہے، نیب پراسیکیوٹر فواد چودھری کی درخواست ضمانت پر دلائل ابھی دے دیں۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ فواد چودھری پر کیس انکوائری سٹیج پر ہے، ریفرنس ابھی خارج نہیں ہوا، ریفرنس کا ریکارڈ تفتیشی افسر سے منگوا لیا ہے، راستے میں ہے۔
وکیل صفائی عامر عباس کے دلائل
وکیل صفائی عامر عباس نے کہا کہ انکوائری سٹیج پر نیب کو کسی کو گرفتار کرنے کا اختیار نہیں، پی ڈی ایم کی حکومت تھی اور فواد چودھری کو گرفتار کر لیا گیا، فواد ممبر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن ہیں، سابق وفاقی وزیر رہے، نیب کو استعمال کرتے ہوئے فواد چودھری کے خلاف سیاسی انتقام لیا گیا۔
انہوں نے اپنے دلائل میں کہا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت نے لوگوں کی گرفتاریاں کروا کر تنگ کیا، حکومت نے نیب کیس میں جسمانی ریمانڈ 14 دنوں سے 30 دن تک کر دیا تھا، فواد چودھری کا 29 دن کا جسمانی ریمانڈ لیا گیا جو تاریخی ہے، سیاسی انتقام لینا تھا جس کے لیے دو ماہ سے فواد جیل میں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ ڈی جی نیب راولپنڈی نے فواد چودھری کے خلاف انکوائری مارک کی، 10 نومبر 2023 کو ان کے خلاف انکوائری کھولی گئی، فواد 2018 میں جہلم سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، نیب نے الزام لگایا انہوں نے سڑک کی تعمیر میں اثر و رسوخ استعمال کیا، فواد وزیر اطلاعات، سائنس و ٹیکنالوجی تھے، تعمیراتی منصوبوں سے تعلق نہیں تھا۔
"کیا کوئی پروپوزل آگے بھیجنا کوئی جرم ہے؟"
وکیل صفائی نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ رپورٹ میں کوئی ایک جملہ سامنے لے آئیں جہاں فواد چودھری نے اثر و رسوخ استعمال کیا ہو، کیا کوئی پروپوزل آگے بھیجنا کوئی جرم ہے؟ فواد چودھری پر الزام لگایا کہ ٹھیکیدار سے 50 لاکھ روپے رشوت وصول کی، ٹھیکہ تو ایف ڈبلیو او نے دینا تھا، فواد چودھری نے نہیں، اب تو انتخابات ہو گئے، اب کیوں جیل میں رکھا ہوا ہے۔
"فواد تو ہیں ہی جیل میں تو تعاون کیسے نہیں کر سکتے"
وکیل صفائی فیصل چودھری نے کہا کہ فواد پر تعاون نہ کرنے کا الزام ہے، وہ تو ہیں ہی جیل میں تو تعاون کیسے نہیں کر سکتے؟ میں فواد کا بھائی ہوں، مجھ پر بھی کیس بنایا گیا، سڑک کی تعمیر کے لیے لی گئی زمین میں فواد کو ایک انچ زمین نہیں ملی، 16 کنال زمین سے متعلق نیب نے کوئی ریکارڈ پیش نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ فواد چودھری کے تمام اثاثے اور بینک اکاؤنٹس ڈکلیئر ہیں، تفتیشی افسر نے ان کی بچیوں تک کے اکاؤنٹس پوچھے، نیب تفتیشی افسر کو یہی نہیں معلوم کہ چار 5 سال کی بچیوں کے بینک اکاؤنٹس نہیں ہوتے، ان کو انتخابات لڑنے سے روکا گیا، تب ہی جیل میں رکھا۔
"فواد باہر ہوتے تو ایک اور فارم 45، 47 کا جھگڑا کھڑا ہوتا"
فیصل چودھری نے مزید کہا ہے کہ فواد چودھری باہر ہوتے تو ایک اور فارم 45، 47 کا جھگڑا کھڑا ہوتا، کوئی ایک الزام ثابت کر دیں کہ فواد چودھری نے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا ہو، ان کو پاکستان میں ہی رہنا ہے۔
وکیل کی ضمانت منظور کرنے کی استدعا
وکیل صفائی فیصل چودھری نے بھی فواد چودھری کی ضمانت منظور کرنے کی استدعا کر دی۔
نیب پراسیکیوٹر عثمان مسعود نے فواد چودھری کی درخواست ضمانت پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سرکاری ملازم فائدے کے لیے اتھارٹی کا غلط استعمال کرے تو کیس بنتا ہے، فواد چودھری نے ٹھیکیدار سے ڈیل کی کہ کنٹریکٹ آپ کو دے دیں گے۔
فواد پر دفعات قابل ضمانت نہیں، 14 سال قید ہے: نیب پراسیکیوٹر
نیب پراسیکیوٹر کے مطابق فواد چودھری نے ٹھیکیدار کو کنٹریکٹ دینے کے لیے غیرقانونی راستہ اپنایا، ان پر دفعات قابل ضمانت نہیں، 14 سال قید ہے، ان پر لگی دفعات پر سپریم کورٹ تک نے ضمانت منظور نہیں کی، وہ دوران تفتیش تعاون نہیں کر رہے تھے، سیدھا سیدھا کیس ہے، فواد وزیر تھے، ٹھیکیدار کے ساتھ ڈیل کی اور رشوت لی۔
نیب پراسیکیوٹر عثمان مسعود نے فواد چودھری کی درخواست ضمانت خارج کرنے کی استدعا کر دی۔
بعدازاں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وفاقی وزیر فواد چودھری کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔