اسلام آباد: (دنیا نیوز) نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ لاپتہ بلوچ طلبہ کیس میں طلب کیے جانے پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہو گئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگیوں سے متعلق کیس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے اور عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم انوار الحق کاکڑ عدالت میں موجود ہیں۔
منصور عثمان اعوان نے مؤقف اختیار کیا کہ لاپتہ بلوچ طلبہ کی بازیابی کے لیے کوششیں کی گئیں، 11 مزید لاپتہ بلوچ طلبہ کو بازیاب کرالیا گیا ہے، 9 افراد سی ٹی ڈی کی تحویل میں ہیں، 4 تاحال ٹریس نہیں ہو سکے۔
ریاستی ادارے بھی جوابدہ ہیں: جسٹس محسن اختر
اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے بتایا کہ دو افراد افغانستان میں ہیں، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا جو قانونی عمل میں آگئے وہ اس کورٹ کے مینڈیٹ سے نکل گئے، ان کےخلاف کیس ہیں تو وہ متعلقہ عدالتیں دیکھیں گی۔
جسٹس محسن کیانی نے کہا ہم نے 2 سال میں کئی سماعتیں کیں، بلوچ طلبہ اٹھائے گئے، کچھ لوگ دہشتگرد ہیں، کچھ نے ٹی ٹی پی کو جوائن کیا، کچھ لوگ گھروں کو پہنچ گئے ہیں، ریاستی اداروں کو کام بھی کرنا ہے اور انہیں جوابدہ بھی ہونا ہے۔
عدالت نے کہا کہ یہ کیس چلا ہے تو اداروں کی کوششوں سے ہی لوگ گھروں کوپہنچے ہیں، ادارے قانون سے بالاتر یا مستثنیٰ نہیں، اگر کسی کو گرفتار کریں تو اس سے متعلق پتہ ہونا چاہیے، لوگ لاپتہ ہوں تو پاکستان کی ریاست پر الزامات لگتے ہیں، ہم نے انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان پر مشتمل کمیٹی اسی لیے بنائی تھی۔
لاپتہ افراد کی وجہ سے پوری ریاست کو مجرم تصورکرنا درست نہیں: نگران وزیراعظم
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کون احمق اور بے وقوف ہوگا جو جبری گمشدگیوں کی ایڈووکیسی کرے گا، ہم سب آئین اور قانون کے تحت کام کر رہے ہیں، میں عدالت کے بلانے پر حاضر ہوا ہوں، میرا تعلق بلوچستان سے ہے، ہم مسلح جدوجہد کا سامنا کر رہے ہیں، وہ نئی ریاست تشکیل دینے کیلئے مسلح جدوجہد کر رہے ہیں، ریاست اخلاقی طور پر خود کوبالادست سمجھتی ہے تو ان کی جوابدہی زیادہ ہوتی ہے۔
انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا ایسا نہیں ہے کہ خودکش حملہ آور نیک نامی کا باعث بنتے ہیں، لاپتہ افراد سے متعلق پیراملٹری فورسز، کاؤنٹر ٹیرارزم کے اداروں پر الزامات لگائے جاتے ہیں، یہ لاپتہ افراد کا پوچھیں تو 5 ہزار نام دے دیتے ہیں، یہ خود بھی اس مسئلے کو حل نہیں کرنا چاہتے، ان کی وجہ سے پوری ریاست کو مجرم تصور کرنا درست نہیں۔
ثبوت نہیں آتے تو کس کو کیسے سزا دیں؟ کاکڑ
انہوں نے بتایا کہ کوسٹل ہائی وے پر بس میں افراد کو زندہ جلا دیا گیا، کسی کو اس وقت انسانی حقوق کی خلاف ورزی یاد نہیں آئی، یہ بسوں سے اتار کر نام پوچھتے ہیں اور چودھری یا گجرکو قتل کر دیتے ہیں، یہ کہتے ہیں طلبہ کی لسانی بنیادوں پر پروفائلنگ نہ کریں، سسٹم میں کمی اور خامیاں ہیں، ثبوت نہیں آتا تو کس کو کیسے سزا دیں۔
نگران وزیراعظم کا کہنا تھا دہشتگردی سے 90 ہزار شہادتیں ہوئیں لیکن 90 لوگوں کو سزا نہیں ہوئی، مجھ سے صحافی نے پوچھا آپ بلوچستان واپس کیسے جائیں گے؟
سب کو قانون کے مطابق ہی چلنا ہے: اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا 24 ماہ میں ایک بار یہ بیان نہیں آیا کہ کوئی سی ٹی ڈی کی تحویل میں ہے، ریاستی اداروں کی ناکامی ہے کہ وہ انہیں پراسیکیوٹ نہیں کر سکے، قانون میں سقم ہے اور ثبوت نہیں ہیں تو اس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے، قانون ایک ہی ہے، سب کو اس کے مطابق ہی چلنا ہے۔
وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ نگران حکومت کا ڈومین نہیں تھا مگر آنے والی حکومت سے درخواست ہو گی اسے دیکھے، ریاست کو آئے دن کے الزمات سے نکالنا چاہیے، ہم نے اور عام شہریوں نے ہتھیار نہیں اٹھائے کیونکہ تحفظ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا ریاست کو ہتھیار اٹھانے والے شہریوں سے الگ طریقے سے ڈیل کرنا چاہیے، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کوئی عدالت نان سٹیٹ ایکٹرز کو تحفظ دینے کا نہیں کہہ رہی۔
وزیراعظم نے عدالت کو بتایا کہ انگلینڈ نے شام جانے والی برطانوی خاتون کی شہریت ختم کر کے اسے واپس بھجوا دیا، جس پر فاضل جج نے کہا بلاشبہ جنگ ہے اور ہماری فوج اور ادارے لڑ رہے ہیں۔
آئین ریاست سے غیرمشروط وفاداری کا تقاضہ کرتا ہے: وزیراعظم
انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا نان سٹیک ایکٹرز کی خلاف ورزیاں بھی ریکارڈ ہوتی ہیں، بلوچستان کے ایک سابق چیف جسٹس کو مغرب کی نماز کے وقت مسلح جتھوں نے شہید کیا تھا، ان چیف جسٹس صاحب نے ایک انکوائری کی سربراہی کی تھی، آئین ریاست سے غیرمشروط وفاداری کا تقاضہ کرتا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے نگران وزیراعظم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ نے بہت اچھی باتیں کیں لیکن بلوچستان جانے کی ضرورت نہیں، اسلام آباد میں ہم بہت کچھ دیکھ رہے ہیں، یہ مطیع اللہ جان کھڑے ہیں، انہیں دن دیہاڑے اٹھایا گیا تھا، جس پر انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا ایسا اقدام جس کسی نے اٹھایا ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔
یہ تاثر درست نہیں کہ ہم ریاست کیخلاف ہیں: وکیل ایمان مزاری
وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ جب بات لاپتہ افراد کی ہو تو دہشتگردوں کی طرف چلی جاتی ہے، لاپتہ افراد کے اہلخانہ کیلئے یہ بات بہت تکلیف دہ ہوتی ہے، یہ تاثر درست نہیں کہ ہم ریاست کے خلاف کوئی پروپیگنڈا کر رہے ہیں، ہم بھی اسی ریاست کا حصہ ہیں، ہم کبھی بھی دہشتگردی کو سپورٹ نہیں کرتے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق کامیاب اقدامات کا کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے، کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے کہ 59 افراد میں صرف 8 لوگ رہ گئے ہیں۔
نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین سے متعلق بات نہیں کر رہا، اس مسئلے سے جڑا ایک مسئلہ ہے جس سے متعلق بات کی۔
درخواست گزار وزیراعظم کو جواب نہیں دے سکتیں: اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے وزیراعظم کو طلب کیا اور وہ پیش ہوگئے، وزیراعظم نے عدالت میں بیان دے دیا اور یہ معاملہ یہاں ختم ہو گیا، یہ معاملہ وزیراعظم اور عدالت کے درمیان تھا، درخواست گزار وزیراعظم کو جواب نہیں دے سکتیں، جسٹس محسن کیانی نے کہا وہ وزیراعظم کو جواب نہیں دے رہیں، ان کا مؤقف تو پہلے سن لیں۔
ایمان مزاری نے کہا ہم بھی شدت پسندی کی کارروائیوں کی حمایت نہیں کرتے، کمیشن کی رپورٹس موجود ہیں کہ جبری گمشدگیوں میں ادارے ملوث ہیں جس پر وزیراعظم نے کہا کہ میں ایمان مزاری کے دلائل سے اختلاف کرتا ہوں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ہم تو اب ایکشن کی طرف جا رہے ہیں اور آئندہ انٹیلی جنس اداروں کی کمیٹی سے پوچھیں گے جس پر نگران وزیراعظم نے کہا ہم سمجھتے ہیں یہ اختیار ایگزیکٹو کا ہے، ہم نے اس آرڈر کو چیلنج کیا ہے۔
نگران وزیراعظم اور جسٹس محسن کیانی کے درمیان دلچسپ مکالمہ
نگران وزیراعظم کا کہنا تھا ایک سابق چیف جسٹس بلوچستان میں نماز کی ادائیگی کے دوران شہید ہوئے، یو این کا بھی ایک طریقہ ہے، وہ پوچھتے ہیں کون لاپتہ ہوا، وہ پوچھتے ہیں آپ جسٹس محسن اخترکیانی ہیں آپ لاپتہ ہو گئے ہیں۔
جسٹس محسن اخترکیانی نے ریمارکس دیئے آپ مجھے بتا رہے ہیں کہ مجھے جبری لاپتہ ہو جانا ہے؟ جس پر نگران وزیراعظم کا کہنا تھا میں مثال دے رہا ہوں، میں انوار کا نام لے لیتا ہوں جس پر فاضل جج نے کہا ان عدالتوں نے بہت بڑے دہشتگردوں کو بھی سزائیں دی ہیں۔
بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو کورٹ روم سے واپس جانے کی اجازت دیدی۔
فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس کی وجہ سے بہت سے مسنگ پرسنز ٹریس ہوئے، آپ کی درخواست پر کارروائی ہوئی، سب نے اپنا کام اور کردار ادا کیا، جو لوگ سی ٹی ڈی کی تحویل میں ہیں ان کے کیسز چلیں گے۔
مسنگ پرسنز بازیابی کے بعد عدالت نہیں آتے: جسٹس محسن
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا ججمنٹ دینا کوئی مسئلہ نہیں تھا، اہم بات یہ ہے کہ لوگ واپس آئے، ری کور ہونے کے بعد کوئی کبھی بھی عدالت میں نہیں آیا، ہمیں ہمیشہ یہ گلہ رہا ہے کہ مسنگ پرسنز بازیابی کے بعد عدالت نہیں آتے۔
عدالت نے سی ٹی ڈی کی تحویل میں افراد کے خلاف مقدمات کی تفصیل درخواست گزار کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے نگران وزیراعظم کو پہلے بھی طلب کیا تھا تاہم وزیراعظم عدالت پیش نہیں ہوئے تھے جس پر عدالت نے دوبارہ انوار الحق کاکڑ کی طلبی کا نوٹس جاری کیا تھا۔