ابوابِ کعبہ

Published On 08 April,2024 10:39 am

لاہور: (خاور نیازی) مکہ مکرمہ کے معروف مورخ شیخ ظاہر الکروی اپنی ایک کتاب جس کا اردو میں ترجمہ عبدالصمد صارم نے کیا ہے، لکھتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم الٰہی ہوا کہ مکہ کی طرف جاؤ تو آپؑ حضرت حاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لے کر روانہ ہوئے اور اس مقام پر پہنچے جہاں اب مکہ واقع ہے۔

یہاں نہ تو کوئی عمارت تھی اور نہ پانی اور نہ ہی یہاں آبادی کے کوئی آثار تھے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی اور بچے کو یہاں بٹھا دیا، پانی کا ایک مشکیزہ اور کچھ کھجوریں ان کے حوالے کر کے خود شام کی جانب چل دیئے، دوسری دفعہ حضرت ابراہیمؑ واپس آئے تو یہاں قیام نہ کیا لیکن جب تیسری بار مکہ آئے تو حضرت اسماعیلؑ سے فرمایا کہ بیٹا، اللہ تعالٰی نے مجھے حکم دیا ہے کہ یہاں میں اللہ تعالٰی کا ایک گھر بناؤں، کیا تم میری مدد کرو گے؟ حضرت اسماعیلؑ نے کہا، کیوں نہیں۔

گھر کی تعمیر شروع ہوئی تو حضرت اسماعیلؑ پتھر لاتے اور حضرت ابراہیمؑ دیوار بلند کرتے جاتے، یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ مکہ مکرمہ کی پاک سرزمین پر تعمیر ہونے والے اس گھر کی تعمیر مٹی سے ہوئی اور نہ ہی چونے سے بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پتھر پے پتھر رکھتے چلے گئے، ابتدا میں اس مقدس عمارت کی نہ تو چھت بنائی اور نہ ہی اس کا دروازہ بنایا گیا تھا، تاہم گزشتہ پانچ ہزار سالوں کی دستیاب تاریخ کے مطابق مختلف ادوار میں خانہ کعبہ کے اب تک چھ بار دروازے تبدیل کئے جا چکے ہیں، اس کے بعد مختلف ادوار میں بیت اللہ کی تعمیر ہوتی رہی، قریش نے بھی اس تعمیر کو آگے بڑھایا اور بعد میں بھی ہوتی رہی۔

خانہء کعبہ اس روئے زمین پر مسلمانوں کا مقدس ترین مقام تو ہے ہی لیکن اس روئے زمین پر تعمیر ہونے والا پہلا خانہ خدا بھی ہے، اس کے ابواب یعنی اس کے دروازوں کی تاریخ بھی ہزاروں سال قدیم ہے جہاں تک خانہ خدا کے دروازوں کا تعلق ہے وہ اس روئے زمین پر موجود کسی بھی عمارت کے سب سے پرانے دروازے ہیں، خانہ کعبہ کے پرانے دروازے آج بھی سعودی عرب کے قومی ثقافتی ورثے میں محفوظ ہیں۔

خانہ کعبہ کا پہلا دروازہ
الازوقی نے ’’اخبار مکہ‘‘ میں ابن جریر کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ بعثت نبوی سے کئی سال پہلے تبع ہی وہ پہلے بادشاہ تھے جنہوں نے خانہ کعبہ کا پہلا دروازہ لگوایا، اس پر غلاف چڑھایا اور ساتھ ہی اپنی اولاد کو اس کی دیکھ بھال کی تلقین کی، تبع کے بارے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ غلاف کعبہ کو رواج دینے والے بھی تبع ہی تھے۔

یاد رہے کہ بادشاہ تبع، جس نے بعد میں یہودیت اختیار کر لی تھی اس کا دور 375 عیسوی سے 440 عیسوی کے درمیان رہا ہے، اگرچہ خانہ کعبہ کے پہلے دروازے کی تعمیر کی صحیح تاریخ بارے تاریخ خاموش ہے تاہم اکثر مورخین کا خیال ہے کہ خانہ کعبہ کا پہلا دروازہ چوتھی صدی کے آخری عرصے میں تعمیر ہوا ہوگا۔

تبع پہلے حکمران تھے جنہوں نے خانہ کعبہ کو پاک صاف کیا، اس کا دروازہ بنوایا اور اس کی چابی بھی بنوائی، مورخین کہتے ہیں کہ یہ دروازہ لکڑی سے بنایا گیا تھا اور پورے دور جاہلیت کے دوران موجود رہا، عہد اسلامی کے ابتدائی دور تک یہی دروازہ رہا۔

خانہ کعبہ کا دروازہ خانہ کعبہ کے شمال مشرقی دیوار پر واقع ہے، اسے ’’باب الرحمان‘‘ جبکہ عربی میں اسے ’’باب الرحمتہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے جس کے معنی ’’رحم والا دروازہ‘‘ کے ہیں، اللہ کے گھر تک رسائی کا یہ واحد راستہ ہے۔

خانہ کعبہ کا دوسرا دروازہ
تبع بادشاہ کے دور میں خانہ کعبہ کے بنائے گئے دروازے کو بعدازاں حضرت عبداللہ بن زبیر نے 64 ہجری میں تبدیل کیا، انہوں نے گیارہ ہاتھ لمبا دروازہ تیار کرایا جسے ’’باب کعبہ‘‘ کہا جاتا ہے۔

تیسرا دروازہ
75 ہجری میں جب بنوامیہ نے حجاج بن یوسف کی قیادت میں مکہ فتح کیا تو انہوں نے سب سے پہلے خانہ کعبہ کی ازسر نو تعمیر کا ارادہ کیا، چنانچہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن زبیر والا دروازہ تبدیل کر کے دوبارہ اس دروازے کی لمبائی چھ ہاتھ کرا دی جبکہ حجاج بن یوسف نے اپنے کاریگروں کو دوسرے دروازے پر مہر لگانے کا حکم دیا، جسے ’’پوشیدہ دروازہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔

چوتھا دروازہ
خانہ کعبہ کے چوتھے دروازے کو تبدیل کرنے کی سعادت 1045ھ میں عثمانیہ دور کے بادشاہ مراد چہارم کو حاصل ہوئی، یہ دروازہ لگ بھگ تین صدیوں تک اسی حالت میں رہا، اس دروازے کی خاص بات یہ تھی کہ اس پر چاندی کی قلعی اور 200 رطل سونا استعمال ہوا تھا، اس لحاظ سے یہ خانہ کعبہ کا پہلا دروازہ تھا جس میں سونا اور چاندی استعمال ہوا تھا، بنیادی طور پر اس دروازے کے دو پاٹ تھے جن پر تاریخی اور اسلامی فن تعمیر کو مد نظر رکھتے ہوئے دھاتی پلیٹوں پر نقش و نگار کئے گئے تھے، یوں تین سو سالوں سے کچھ زیادہ عرصہ تک یہ دروازہ حجاج کرام اور معتمرین کا استقبال کرتا رہا۔

پانچواں دروازہ
سعودی عرب میں آل سعود کی حکمرانی کے قیام کے بعد شاہ عبدالعزیز السعود نے 1363 ہجری میں محسوس کیا کہ تین صدیوں سے بھی زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد موجودہ دروازہ کمزور پڑ چکا ہے، چنانچہ شاہ عبدالعزیز کے حکم پر ایک نئے دروازے کی تعمیر پر کام شروع ہوا جس کی بنیاد تو فولاد سے بنائی گئی لیکن اس کے دونوں پٹ قیمتی لکڑی سے بنائے گئے تھے، جن پر سونے اور چاندی کی ملمع کاری کا انمول کام کیا گیا، یہ دروازہ شاہ کے حکم پر تین سال کی شبانہ روز محنت کے بعد پایہ تکمیل تک پہنچا تھا۔

چھٹا دروازہ
خانہ کعبہ کا چھٹا دروازہ شاہ خالد بن عبدالعزیز کے حکم پر ایک سال کی مسلسل محنت اور لگن کے ساتھ معروف سنار احمد بن ابراہیم بدر نے 1398 ہجری میں خانہ کعبہ کی زینت بنا تھا، اس دروازے کی تیاری میں 280 کلو گرام خالص سونا خرچ ہوا جس پر 10 لاکھ 43 ہزار کے لگ بھگ سعودی ریال خرچ ہوئے تھے۔

خانہ کعبہ بارے چند حقائق
روایات کے مطابق کعبہ چونکہ ایک گہری وادی میں واقع تھا اور یہاں سال کے بیشتر حصے میں اکثر سیلاب آیا کرتے تھے جس کی وجہ سے خانہ کعبہ کے دروازے کو قدرے بلندی پر بنایا گیا تھا، چنانچہ قریش نے جب خانہ کعبہ کی تزئین و آرائش کا فیصلہ کیا تو سب سے پہلے انہوں نے کعبہ کے مغربی دروازے پر مہر لگائی اور مشرقی دروازے کو زمین سے اونچا کر دیا، یہ دراصل کعبہ کو سیلابی پانی سے محفوظ بنانے کی طرف ایک قدم تھا، اس وقت کعبہ کا دروازہ زمین سے 7 فٹ بلند ہے۔

اگرچہ ہم کعبہ کا صرف ایک دروازہ دیکھتے ہیں لیکن 2018ء میں دوران حج آنے والے طوفان میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ کعبہ کے دراصل دو دروازے ہوا کرتے تھے، کعبہ کے سنہری دروازے پر قرآن پاک کی مختلف آیات کندہ ہیں، خانہ کعبہ کے قفل اور اس کی کلیدوں کی تاریخ بہت طویل ہے، تقریباً ہر مسلمان فرمانروا نے خانہ کعبہ کے دروازوں پر قفل لگائے اور ان کی چابیاں تیار کرنے اور انہیں اپنے پاس محفوظ رکھنے کو ایک اعزاز سمجھا، خانہ کعبہ کلید برادری کا اعزاز بنی شیبہ کے خاندان کو جاتا ہے اور صدیوں سے بنی شیبہ کلید کعبہ اپنے پاس رکھتے ہیں۔

اس وقت دنیا کے مختلف عجائب گھروں میں کلید کعبہ قفل کعبہ موجود ہیں، انہی میں ایک قفل اور اس کی کلید پیرس کے ’’لوور میوزیم‘‘ میں محفوظ ہے، اس کے علاوہ قاہرہ کے تاریخی عجائب گھر میں بھی قفل کعبہ اور کلید کعبہ موجود ہیں۔

خاور نیازی ایک سابق بینکر، لکھاری اور سکرپٹ رائٹر ہیں، ملک کے مؤقر جرائد میں ایک عرصے سے لکھتے آ رہے ہیں۔
 

Advertisement