تحریک انصاف اور (ن) لیگ کے پلان بی

Published On 30 May,2024 12:43 pm

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف اپنے اپنے پلان بی کے ساتھ میدان میں اُتر چکی ہیں، ایک کے پاس مقبولیت نہیں تو دوسرے کے پاس قبولیت نہیں، ایک عوام کو اپنے دکھ کی داستان سنا رہی ہے تو دوسری مقتدرہ پر دباؤ بڑھانے کیلئے جارحانہ سیاست پر اُتر آئی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف جس حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اتری ہے اس کی توقع نہیں کی جا رہی تھی، گزشتہ چند روز کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور بانی پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس سے اچانک مہم شروع کر دی گئی، چند روز قبل ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے والے ادارے ایس آئی ایف سی کے خلاف ایسے وقت میں مہم چلائی گئی جب دوست ملک متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستان کیلئے دس ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا گیا۔

اس کے چند ہی گھنٹوں بعد سانحہ مشرقی پاکستان کو زیر بحث لا کر پاکستان کی عسکری قیادت کے خلاف مہم شروع کر دی گئی، اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کے کچھ حلقوں میں اس مہم کو ایک بڑا بلنڈر قرار دیا جا رہا ہے مگر اس جارحانہ مہم کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ مقتدرہ پر دباؤ بڑھایا جائے، پاکستان تحریک انصاف کا خیال تھا کہ مقتدرہ انہیں کسی نہ کسی سٹیج پر انگیج ضرور کرے گی اور بانی پی ٹی آئی کے ساتھ بیک ڈور رابطے ہوں گے مگر ان کا اندازہ غلط نکلا۔

تحریک انصاف نے ماضی قریب میں مقتدرہ پر دباؤ ڈالنے کیلئے کئی حربے آزمائے مگر ان میں سے ایک بھی کامیاب نہ ہو سکا، مقتدرہ طے کر چکی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ کسی بھی قسم کی ڈیل حتیٰ کہ بات چیت بھی نہ ہوگی، مقتدرہ پر دباؤ ڈالنے کیلئے عسکری قیادت کے براہ راست نام لے کر الزامات لگائے گئے، 9 مئی کے واقعات ہوئے، آئی ایم ایف ہیڈ کوارٹرز کے باہر پاکستان کے خلاف احتجاج کیا گیا، آئی ایم ایف کو خط تک لکھ دیا گیا۔

اب اگلے مرحلے میں ایس آئی ایف سی اور اس کے بعد سانحہ مشرقی پاکستان کو جواز بنا کر مہم شروع کی گئی، مگرمقتدرہ کی جانب سے اس معاملے پر فوری ردعمل دینے کی بجائے اسے ٹیسٹ میچ کے طور پر کھیلنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، تحریک انصاف کی اس چال پر فوری ردعمل نہ دینا اور خاموشی اختیار کرنا تحریک انصاف سمیت بہت سے حلقوں کیلئے حیران کن ہے ، تاہم آنے والے دنوں میں اس کے نتائج دکھائی دیں گے۔

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نے سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کو بانی پی ٹی آئی یا ان کی پارٹی کی پالیسی قرار نہیں دیا، ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کا عمران خان سے کوئی تعلق نہیں، انہوں نے کہا کہ نہ تو بانی پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر جاری مہم کے متن کو دیکھا نہ ہی اس کی منظوری دی، بیرسٹر گوہر کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ مقتدرہ کے خلاف مہم چلانے کے معاملے پر تحریک انصاف کے اندر اختلاف پایا جاتا ہے، مگر تحریک انصاف پر ایسے افراد کی اجارہ داری ہے جو مفاہمت کی بجائے مزاحمت اور جارحانہ سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔

ابھی تک تو پاکستان تحریک انصاف کو اس حکمت عملی کا فائدہ کی بجائے صرف نقصان ہی ہوا ہے، پی ٹی آئی کا مزاحمتی گروپ یہ سمجھتا ہے کہ اگر مزاحتمی سیاست نہ کی گئی اور ملک میں سیاسی استحکام آگیا تو بانی پی ٹی آئی اور ان کی پارٹی کیلئے مشکلات بڑھتی چلی جائیں گی جس کیلئے حکومت اور مقتدرہ پر دباؤ بڑھایا جائے۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے خلاف انتظامی اور قانونی مشکلات میں کوئی کمی نہیں آ رہی، بانی تحریک انصاف کے خلاف توشہ خانہ کا ایک نیا کیس تیار ہو رہا ہے، جبکہ شاہ محمود قریشی 9 مئی کے مقدمات میں بھی گرفتار ہو چکے ہیں، یہ ظاہر کرتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور ان کے قریبی ساتھیوں کی مستقبل قریب میں رہائی کا امکان نظر نہیں آ رہا، گزشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے رہنما پاکستان تحریک انصاف رؤف حسن نے خود کہا کہ لگتا ہے بانی پی ٹی آئی کو مزید کچھ عرصہ جیل میں گزارنا ہوگا۔

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) نے چھ سال بعد ایک مرتبہ پھر میاں نواز شریف کو اپنا صدر منتخب کر لیا اور 28 مئی کو یوم تکبیر کے موقع پر پارٹی کی ری لانچنگ کی گئی، اقامہ کیس میں نااہلی کے بعد میاں نواز شریف کو پارٹی صدارت سے بھی ہاتھ دھونے پڑے اور کئی برس تک (ن) لیگ نے کٹھن سیاسی صورتحال کا سامنا کیا، حالات بدلے ، کیسز میں ریلیف ملا، حتیٰ کہ دوسری مرتبہ حکومت بھی مل گئی مگر مسلم لیگ (ن) کو مقبولیت اور بیانیے کے میدان میں بدترین صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔

آج پاکستان مسلم لیگ (ن) کو مقتدرہ کی حمایت تو حاصل ہے مگر اسے بیانیہ نہ ہونے کی پریشانی بھی کھائے جا رہی ہے، ان کا سب سے بڑا سیاسی حریف جیل میں ہونے کے باوجود ان کے اعصاب پر سوار ہے، میاں نواز شریف نے دوبارہ پارٹی صدارت سنبھالنے کی بعد مستقبل کا لائحہ عمل دینے کی بجائے ماضی کے شکوے کئے اور اپنے اور جماعت کے ساتھ ہونے والے سلوک پر ہی زیادہ بات کی۔

چھ سال بعد پارٹی سربراہی کی تبدیلی سے متعلق تقریب میں مسلم لیگ (ن) کوئی نئی سیاسی حکمت عملی سامنے نہ لا سکی، مسلم لیگ (ن) کی سیاسی بقا کیلئے اب بس ایک ہی راستہ ہے کہ موجودہ مشکل ترین معاشی صورتحال میں عوام کیلئے ریلیف پیدا کریں اور معاشی اصلاحات کر ڈالیں، صدر مسلم لیگ (ن) میاں نواز شریف نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ شہباز شریف پاکستان کے حالات کا رُخ موڑ دیں گے جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں خوشحالی نہ آئی تو کوئی جج ہوگا نہ سیاستدان۔

مسلم لیگ (ن) کو شاید اس بات کا اندازہ ہو چکا ہے کہ اب بیانیہ صرف عوام کو ریلیف دے کر ہی بنایا جا سکتا ہے اور آئی ایم ایف کی شرائط پر بننے والے بجٹ میں ایسا کرنا آسان کام نہیں، (ن) لیگ کو مشکل معاشی فیصلے ایک ایسے وقت میں کرنے ہیں جب اس کی بڑی اتحادی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی بھی اس کے فیصلوں کا بوجھ اٹھانے کیلئے تیار نظر نہیں آتی۔