اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) بانی پی ٹی آئی کی فوج سے بات چیت کی خواہش سے متعلق بیان نے ملکی سیاست میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے، منگل کے روز اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ فوج مذاکرات کیلئے نمائندہ مقرر کرے ہم بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔
گزشتہ چند روز سے ملکی سیاست میں ایک افواہ گرم تھی کہ بانی پی ٹی آئی اور مقتدرہ کے درمیان بیک ڈور رابطے ہوئے ہیں، مگر ذمہ دار ذرائع نے بتایا ہے کہ ایسی کوئی بات چیت ہو رہی ہے نہ ہی اس کا امکان نظر آتا ہے، بانی پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات کی خواہش کوئی نہیں بات نہیں۔
کچھ حلقے حیران کن طور پر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات کا بیان ایک نئی پیشرفت ہے، بانی پی ٹی آئی تو پہلے روز سے مقتدرہ کے ساتھ بات چیت کے خواہاں تھے، وہ کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ بات چیت ہوگی تو صرف مقتدرہ سے، سیاسی حکومت کے ساتھ بات نہیں کریں گے۔
بانی پی ٹی آئی کی لڑائی کا آغاز ہی اس بات پر ہوا تھا کہ مقتدرہ پہلے جیسی سپورٹ نہیں کر رہی، گزشتہ دو برسوں کے دوران مقتدرہ کی جانب سے کوئی جواب موصول نہ ہونے کے باعث بانی پی ٹی آئی اور ان کی جماعت کے کچھ افراد نے اعلیٰ شخصیات سے متعلق سخت مؤقف اپناتے ہوئے تصادم کا ماحول پیدا کر دیا تاکہ سیاسی دباؤ پیدا کر کے انہیں مجبور کیا جائے کہ تحریک انصاف سے بات چیت کی جائے۔
پھر نو مئی 2023ء کے بعد کی صورتحال نے معاملے کو مزید کشیدگی کی جانب بڑھا دیا اور ایسا منظر بن گیا کہ معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ گئے، تحریک انصاف کی قیادت اس گمان میں رہی کہ مزاحمتی سیاست کے ذریعے وہ ایسا ماحول پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے گی کہ فریقین کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہی پڑے گا مگر ایسا نہ ہو سکا۔
بانی پی ٹی آئی کی اڈیالہ جیل میں اسیری کے دوران ایک مرتبہ بھی ایسا نہیں ہواکہ ان کے ساتھ کوئی بیک ڈور رابطہ کیا گیا ہو بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ جہاں ان کی مقبولیت بڑھی وہیں ان کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوا، اگرچہ سابق وزیر اعظم کو عدالتوں سے کئی بار ریلیف ملا ہے مگر ان کی رہائی عمل میں نہیں آ سکی، ان کی اور ان کی جماعت کی مقبولیت میں تو اضافہ ہوا مگر وہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔
تحریک انصاف کی سیاسی حکمت عملی میں گزشتہ دو برسوں کے دوران کئی یوٹرن آئے، کبھی اداروں کو نیوٹرل ہونے پر طعنہ دیا گیا تو کبھی نیوٹرل ہو جانے کی درخواست کی گئی، کبھی امریکا کو ایبسولوٹلی ناٹ کہنے کا بیانیہ بنایا تو کبھی امریکا سے مدد مانگی گئی، کبھی مزاحمت کی سیاست شروع کی تو کبھی مفاہمتی پیغامات دیئے گئے مگر یہ سب کچھ جس مقصد کیلئے ہو رہا تھا تاحال اس پالیسی میں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فوج نو مئی کے حوالے سے ایک معیار طے کر چکی ہے کہ ان واقعات میں ملوث افراد کو اس کی ذمہ داری قبول کر کے قوم سے معافی مانگنا ہوگی اور اس معیار کو ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری سات مئی 2024ء کو اپنی پریس کانفرنس کے ذریعے ریکارڈ پر لا چکے ہیں، اس سے قبل فارمیشن کمانڈرز اور کور کمانڈر کانفرنسز کے اعلامیوں میں بھی نو مئی کے حوالے سے جس غم و غصے کا اظہار کیا جا چکا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ نو مئی کے معاملے کا قانونی انجام جو بھی ہو یہ بانی پی ٹی آئی اور مقتدرہ کے درمیان ایک بڑی دیوار کھڑی کر چکا ہے۔
اس صورتحال کے باوجود آخر بانی پی ٹی آئی نے مقتدرہ کے ساتھ بات چیت کی خواہش کا اظہار کیوں کیا؟ علیمہ خان اور عمر ایوب سمیت تحریک انصاف کی قیادت سے نیوٹرل ہونے کے بیانات کیوں آنے لگے؟ نئی حکمت عملی کے تحت پاکستان تحریک انصاف یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ وہ بحیثیت سیاسی جماعت معاملات بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے، دوسرا بانی پی ٹی آئی کو مشکلات فوری ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں، وہ کئی کیسز میں ضمانتوں، سزا معطلی اور بریت کے باوجود سال بھر سے جیل میں ہیں۔
تیسرا تحریک انصاف کو اندازہ ہو چکا ہے کہ مقتدرہ کے ساتھ معاملات ٹھیک کئے بغیر وہ اپنی مقبولیت کو اقتدار میں تبدیل نہیں کر سکتے، تحریک انصاف چند ہفتوں میں عدل کے ایوانوں میں ہونے والی تبدیلی کے بعد امید رکھتی ہے کہ الیکشن ٹربیونلز سے اس کی انتخابی عذرداریوں پر اہم فیصلے آسکتے ہیں جس کے بعد پارلیمانی نمبر گیم تبدیل ہوسکتی ہے اور اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو معاملات دوبارہ انتخابات کی جانب جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔
ایسے میں گزشتہ دو برسوں کے دوران مقتدرہ کے ساتھ لڑائی کی حکمت عملی کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، چوتھی اور سب سے اہم وجہ اپنے سیاسی حریفوں کی صفوں میں بے چینی پیدا کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات کی خواہش ظاہر کرنے کے بعد وفاقی وزراء کی جانب سے انہیں یو ٹرن کے طعنے دیئے گئے کہ انہوں نے اچانک ترلے منتیں شروع کر دیئے ہیں۔
یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ حکومت خود تو تحریک انصاف کو کئی مرتبہ بات چیت کی دعوت دے چکی ہے مگر وہ یہ نہیں چاہتی کہ تحریک انصاف مقتدرہ سے بات چیت کرے، حکومت اور اس کے اتحادی چاہتے ہیں کہ جب بھی بات چیت ہو سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہو۔
عمران خان کی جانب سے بات چیت کی خواہش کا اظہار تو کر دیا گیا ہے مگر آنے والے دن اس لئے دلچسپ ہیں کہ اگرمقتدرہ کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوتا تو کیا تحریک انصاف ایک مرتبہ پھر اپنی پالیسی پر یوٹرن لے گی؟ پاکستان تحریک انصاف اور اس کے حامی سوشل میڈیا پر ایک عرصے تک خاموش رہ سکیں گے؟ کیا یہ معاملہ اتنا آسان ہوگا کہ مذاکرات کی خواہش کے بیان کے بعد دوسری جانب سے فوری مثبت جواب آ جائے گا؟
تحریک انصاف ملک کی ایک مقبول سیاسی جماعت ہے مگر اسے اپنے معاملات ٹھیک کرنے کیلئے طویل عرصے کی مفاہمتی حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی، جو اس کے مزاج کے برعکس ہے۔